حافظ محمد محفوظ الحق (بہاول پور)
تعلیم کا لفظ علم سے ماخوذ ہے جس کے معنی جاننا، پہچاننا اور واقفیت حاصل کرنے کے ہیں۔ ایک طالب علم جب ابتدائی طور پر درس گاہ میں داخلہ حاصل کرتا ہے تو اس کا ذہن ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے۔ استاد اس کے ذہن کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں علم و آگہی کے باغ کو پروان چڑھاتا ہے اور اسے معاشرے کا ایک مفید شہری بناتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جو ہمارا نصاب ہے کیا وہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ایک استاد وقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنے علم کو وسعت دے رہا ہے؟ یہ سوالات ہر کسی کے بام و در پر دستک دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں نے اس زاویے پر کام کا آ غاز کیا ہے اور ہمارے تعلیمی نظام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟
یقیناً ان سوالوں کے ہمیں مثبت جوابات ملیں گے۔ قبل ازیں ہمارا جو تعلیمی نصاب لاگو تھا وہ کلرک تو پیدا کر رہا تھا مگر جدید ایجادات کے حامل افراد پیدا کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔ آ ج اگر نصاب پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سی تبدیلیاں اور ترجیحات نظر آتی ہیں۔ مثلاً ایک قوم ایک نصاب کے اصول کے تحت یکساں قومی نصاب اب ہمارے تعلیمی اداروں میں لاگو ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال اس کا دائرہ صرف پرائمری جماعت کی سطح تک تھا، اب اس کی وسعت مڈل جماعتوں تک بڑھا دی گئی ہے۔ ملک بھر میں یہ نصاب لاگو ہو چکا ہے۔ امراء جن مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے تھے، اب وہی تعلیم ملک کے ایک دور دراز دیہات کے سکول میں بھی دی جا رہی ہے۔ تفریق کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ امیر اور غریب کا بچہ یکساں نصاب تعلیم کو پڑھ رہا ہے ۔
اسی طرح تمام سرکاری سکولوں میں ناظرہ قرآن اور ترجمہ قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ پرائمری سطح تک ہر بچہ قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم حاصل کرے گا اور جماعت ششم سے اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھے گا۔ اس کے لیے الگ سے پیریڈ رکھ دیا گیا ہے۔ اساتذہ کی تربیت بھی کی جا چکی ہے اور امتحان میں اس کا علیحدہ سے پرچہ لینے کے لیے نمبرات کی تقسیم بھی کر دی گئی ہے۔ تمام سکولوں میں سائنس، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ریاضی کی سوسائٹیز بنا دی گئی ہیں، ان کے رکن طلبہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار اپنے پراجیکٹ بنا کر اور مقابلہ جات میں شرکت کر کے کرتے ہیں جس سے ان مضامین میں طلبہ کی دلچسپی بڑھتی ہے۔
طلباء و طالبات کو فیصلہ سازی، مشاورت، انتظامی معاملات پر دسترس، جمہوری اقدار سے متعارف کرانے اور ہم نصابی سرگرمیوں میں عملی شرکت یقینی بنانے کے لیے سرکاری سکولوں میں سٹوڈنٹ کونسلز کی تشکیل کا اقدام اٹھایا گیا ہے۔ سٹوڈنٹ کونسلوں کاپہلا سال کامیابی سے مکمل ہوا، دوسرے سال کے انتخابات بھی پایہ تکمیل تک پہنچے، جن میں طلبہ نے کلاس نمائندگان اور عہدیداران کا انتخاب کیا۔ طلبہ کے لیے ماہنامہ روشنی میگزین کا اجراء سیکرٹری سکول ایجو کیشن جنوبی پنجاب ڈاکٹر احتشام انور کی علم دوست سوچ کا عکاس ہے۔ انٹرنیٹ پر آن لائن کے ساتھ ساتھ ہر ماہ رسالے کے طور پر اس کی اشاعت سے طلبہ اور اساتذہ کی تحریری و ادبی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ طلبہ اس کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تاکہ ادبی لطافتوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ محکمہ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کر نے کی بھرپور کو ششیں جاری ہیں، اس کے مثبت اثرات بھی نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ بھی اپنے آپ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ قائداعظم اکیڈمی فار ایجو کیشنل ڈیولپمنٹ اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔