نصرت پروین (بہاول نگر)
ان دنوں ہم کئی مشکلات سے بہ یک وقت نمٹ رہے ہیں۔ کبھی مہنگائی، کبھی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، کبھی چینی اور کبھی آٹے کی قلت وغیرہ۔ اگر آپ ان آفات کو محسوس کرتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لیے ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا: ہم جنگ ہار چُکے ہیں، فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ہم کو دوبارہ فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے، اس لیے میرا حکم ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انھیں جلے ہوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے۔
جنرل کا حکم تھا چنانچہ سارے فوجی عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی، وین گوہ کی تصویریں، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا گیا۔ جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔
ٹرین روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔ انجینئرز آئے، انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی، لیکن 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کے پہیے جام ہو گئے۔ دوبارہ انجینئرز آئے، خرابی دور کی اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی، چند کلومیٹر چلنے کے بعد ٹرین کا بوائلر پھٹ گیا۔ پھر انجینئرز آئے، بوائلر کی مرمت کی اور ٹرین پھر چل پڑی۔ ابھی ٹرین تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔ ایک بار پھر انجینئرز آئے، پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی۔ ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئرز اسے ٹھیک کرتے رہے، یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حد میں ہی رہی۔
ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ موسیو! بہت شکریہ، اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی۔ ڈرائیور نے مکے ہوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ہو گیا۔ جب وہ پیرس پہنچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لیے چشم براہ تھی، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کے ہاتھ میں مائیک دے دیا گیا، ڈرائیور بولا: جرمن فوجوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی۔ کچھ عرصے بعد ہالی ووڈ نے اس ڈرائیور پر دی ٹرین نامی ایک فلم بھی بنائی۔
پیارے بچو! اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی دی ٹرین کی کہانی سے کم نہیں، کبھی انجن فیل ہو جاتا ہے، کبھی پہیہ جام، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ہے تو کبھی بوائلر۔ پہلے دن سے اب تک بحران ہی بحران ہے۔ اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں کوئی اور ہے جو اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ ہم سب کو مل کر اس ڈرائیور کو ڈهونڈنا ہے اور اس کے لیے پشتون، بلوچی، سندهی اور پنجابی کا رنگ اتار کر سچا پاکستانی بننا ہو گا۔