دلِ بِینا بھی کر خدا سے طلب

بتول رانی (لودھراں)


مالک کل کائنات نے انسان کو حواسِ خمسہ سے نوازا ہے جو اسے زندگی میں اشیا کو دیکھنے،سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کے قابل بناتی ہیں۔ جہاں تک بصارت کا تعلق ہے تو ہمیں آنکھیں عطا کی گئی ہیں تاکہ ہم دنیا میں موجود نعمتوں کو دیکھ سکیں۔ آنکھوں کی بینائی کے ساتھ ایک مزید حس بھی منسلک ہوتی ہے جہاں آنکھ ظاہر کو دیکھتی ہے تو وہ حس باطن کو سمجھتی ہے۔ جہاں غور و فکر کے لیے حواسِ خمسہ کام کرتی ہیں تو فہم کے لیے علامہ اقبال کا بتایا ہوا دلِ بِیناکام کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ دل کی بصارت کے بغیر آنکھوں کی بصارت نا مکمل ہوتی ہے ۔ کئی مقامات پر دل کا نور آنکھوں کے نور کی تکمیل کرتا ہے۔ دماغ کی سوچ کا محور، آنکھوں کی بصارت اور دل کی بینائی باہم مل کر ایک مثلث بناتے ہیں جس کو درست کام کرنے کے لیے تینوں پہلو درکار ہوتے ہیں۔ وہ رنگ یا بے رنگیاں، وہ نور یا تاریکیاں،وہ شور یا ویرانیاں،وہ خوشی یا اداسیاں جن کو آنکھوں کی بصارت نہیں دیکھ پاتی ان کو دل کی بینائی جانچ سکتی ہے۔ اپنے ارد گرد موجود انسانیت کے مختلف رنگوں کی شناخت کرنے کے لیے کبھی اس حس کو استعمال کر کے دیکھیں تواحساس کے کئی ایسے رنگ نظر آتے ہیں جو ہمارے گمان کا تضاد ہوتے ہیں۔ جب بھی دنیاوی نعمتوں کی طلب میں ہاتھ اٹھیں تو دل کی بینائی اور احساس کی گہرائی کے طلب گار رہیں کیونکہ دل کا نور آنکھ کے نور سے جدا ہے، دل کی بینائی وہ باطن دیکھتی ہے جو آنکھ کا نور نہیں دیکھ پاتا۔

شیئر کریں
22