ساجدہ نظر (ملتان)
بے شک زندگى اللہ تعالى کى نعمت اور حسين تحفہ ہے، يہ بلا مقصد نہیں ہو سکتى ۔ انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دى گئى ہے اور اشرف المخلوقات کے رتبے سے نوازا گيا ہے، فرشتے بھى انسان کے آگے سر بسجود کیےگئے۔ ايسا کيوں ہوا؟ انسان صرف علم کى بنا پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ بنا۔ علم کى وجہ سے انسان کوسب سے ممتاز اور احسن تقويم قرار ديا گيا۔ قرآن پاک کى پہلى وحی جو نبى آخرالزماں ﷺپر نازل ہوئى تو اس کا آغاز لفظ اقرا سے ہوا جس کے معنىٰ ہیں پڑھ۔ يہ لفظ اپنے اندر مفہوم کا ايک سمندر رکھتا ہے۔ علم کی اہمیت پر مزيد زور ديتے ہوئے ارشاد بارى تعالیٰ ہے :قل رب زدنى علما۔ کئى احادیث نبوی ﷺ میں بھى علم حاصل کرنے کى ترغيب دى گئى ہے ۔گويا علم حاصل کرنا ہمارى زندگى کا مقصد قرار ديا گيا ،محض کھيل تماشے ، موج مستى اور کھانے سونے کے لیے ہم دنيا میں نہیں آئے ۔
اب ہم علم پر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ یہ کیا ہے ۔علم دو طرح کا ہوتا ہے دينى اور دنياوى ۔ ايک مسلمان ہونے کى حيثيت سے دينى علم ہى منبع رشد و ہدایت ہے اور دنياوى علوم کے حصول کے لیے زينے کا کام ديتا ہے، اسى لیے تو قرآن میں بار ہا کہا گيا ہے کہ کائنات پرغور و فکر کرو ، تجديد و تحقیق کى دعوت بھى دينى علم سے ملتى ہے ،اس لیے پہلے تو ہميں اسلامى شعار کو اپنانا ہے، ارکان اسلام کو اپنانا ہے ، قرآن کو سمجھنا ہے اور خود کو نماز کا پابند بننا ہے۔ میں نماز کى پابندى سے جڑا اپنا واقعہ آپ کو بتانا چاہوں گی کہ ہمارے گھر میں سب لوگ ہى صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ ہمارے بچپن میں نماز کی عادت پختہ بنانے والد گرامی ہفتہ دس دن بعد گھر میں ايک چھوٹی سی تقريب منعقد کرتے۔ تقريب سے ايک دن پہلے وہ ايک ڈبہ دے کر ہميں کہتے کہ اپنى پسنديدہ ضرورت کى چیز يا کھانے کى ڈش لکھ کر اس میں ڈال دو۔ ہم ايسا ہى کرتے پھر اگلے دن تقريب ترغيب صلوۃ با جماعت منعقد کى جاتى۔ اس موقع پر والد صاحب نماز کى اہميت کے بارے میں بيان کرتے پھر سب بہنوں سے نماز کى بابت پوچھتے کہ کتنى وقت پر پڑھيں اور کتنى قضا؟ اسى طرح بھائيوں سےنماز باجماعت کا سوال کرتے کہ کتنى جماعت کے ساتھ پڑھیں اور کتنى گھر ، خاص طور پر نماز فجر اور عشا کى بابت زيادہ پوچھتے کہ مسجد کتنى پڑھيں ۔ اس کے بعد جس بہن بھائى کی نماز یں زیادہ ہوتیں ، اس کى حوصلہ افزائى کے لیے اسے اس کی من پسند چیز سے نوازا جاتا اور شاباش دى جاتى۔ اس طرح سب بہن بھائى نمازادا کرنے میں سبقت لے جانے کى کوششش کرتے، حتیٰ کہ نماز اور تلاوت کے عادى ہو گئے۔
سکولوں میں قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ لازمی پڑھنے کا آغاز کر کے آج کل کے طلبہ کے لیے توقرآن پاک کو سمجھنا اور بھى آسان بنا ديا گيا ہے، تاکہ اس عظیم کتاب کو سمجھ کر عمل کرنے میں آسانى ہو کيونکہ اصل تو علم وہ ہے جو ہمارے عمل سے نظر آئے ۔
اب آتے ہیں دنياوى علم کى طرف جس میں سکول جانا ، سائنس و ٹيکنالوجى پر عبوررکھنے کے ساتھ ساتھ زندگى گزارنے کے لیے اچھا مقام اور عہدہ حاصل کرنا ہے۔ ان سب اس کے لیے بھى پڑھنا لازمی ہوتا ہے۔ ہر والدين کى خواہش ہوتى ہے کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کريں اور خوشحال زندگى گزاريں۔ یہاں میں ایک بار پھر اپنی زندگی سے منسلک ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گی کہ اپنے زمانہ طالب علمی میں مجھے پڑھنا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ ہر وقت کھیلنا کودنا مجھے مرغوب تھا۔ جماعت میں نالائق ہونے کى وجہ سے سکول جانے کو بھی دل نہیں کرتا تھا۔امتحان میں بمشکل 33 فیصد نمبر لے کر اگلى جماعت میں پروموٹ ہو جاتى۔ والد صاحب بہت سمجھاتے کہ بیٹا پڑھا کرو، وقت ضائع نہ کرو، وقت اپنے ضائع کرنے والے سے برا انتقام ليتا ہے ليکن مجھے ان باتوں کى سمجھ نہیں آتى تھى۔ اسى طرح کرتے کرتےمیں ساتويں جماعت میں آگئى۔ چونکہ بہت لاپرواہ تھى، روز کا سبق ياد نہیں کرتى تھى، بس سوچتى رہتى کہ کل سے کروں گى، آخرکارامتحان کے دن آگئے، امتحانات کے بعد جب نتيجہ آيا تو میں فيل ہو گئى ۔ اپنی ناکامی پر مجھے بہت دکھ ہوا۔سب رشتہ داروںاور کلاس فیلوزنے تمسخر اڑايا۔ اس دن میں نے اپنے والد صاحب کى آنکھوں میں پہلى بار آنسو ديکھے جن کی وجہ ميرى ناکامى تھى ۔ اس لمحے مجھے اپنے اساتذہ اور والدين کى ايک ايک نصیحت ياد آنے لگى۔ شرمندگى اور ندامت اس قدر ہوئى کہ خود کو کمرے میں بند کر ليا، کھانا بھى نہیں کھايا اور سو گئى ۔ رات کو خواب میں ديکھا کہ میں بہت بلندى پر اڑ رہى ہوں اور بہت خوش ہوں کہ اچانک دھرام سے زمین پر گر گئى ہوں اور پھر اچانک ميرى آنکھ کھل گئى ۔ ابھى بستر سے اٹھى بھى نہ تھى کہ فون کى گھنٹی بج اٹھی، اباجى نے فون اٹھايا اور يوں گويا ہوئے: اللہ کا شکر ہے، سب بچے کامياب ہو گئے ليکن ساجدہ کى ناکامى کا افسوس ہے، اپنى ناکامى سے زيادہ اولاد کى ناکامى کا دکھ ہوتا ہے۔ اپنے والد گرامی کى اس بات سے ميرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا اور میں نے عہد کر ليا کہ اب خوب محنت کروں گى ۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ سال ضائع نہیں کرنا چھ ماہ ساتويں جماعت کا نصاب پڑھ کر کمى دور کروں گى ،باقى چھ ماہ آٹھويں کا نصاب پڑھ کر بطور پرائيويٹ اميدوار جماعت ہشتم کا امتحان دوں گى۔ پھر میں نے باقاعدہ ٹائم ٹيبل بنايا اور نئے عزم سے پڑھائى شروع کر دى ۔ رات جلدى سو جاتى، صبح چار بجے اٹھ کرپڑھائى شروع کر دیتی کيونکہ صبح کے وقت سبق جلدى ياد ہوتا ہے ۔ یقین کريں پڑھائى کرکے مجھے سکون ملنے لگا اور والدين بھى بہت خوش ہوتے، ہر وقت دعائيں ديتے۔ والد صاحب پڑھائى میں مدد کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے۔ ہشتم جماعت کا امتحان ديا اور بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوئى ،اسى طرح ميٹرک میں بھى فرسٹ ڈویژن حاصل کى، ايف اے میں بھى بہت اچھے نمبر حاصل کیے اور آج میں ڈبل ايم اے ہوں ،بي ايڈ کے کالج کے امتحان میں تدريس اردو میں کالج بھر میں دوسرى پوزيشن حاصل کى ، اور نسيم حجازى کاایک ناول بطور انعام حاصل کيا جو آج تک ميرے پاس ہے۔
اپنی ناکامى سے میں نے سیکھا کہ فيل ہونے کا مطلب يہ نہیں کہ تمام در بند ہوگئے، میں نے یقین کے ساتھ محنت کى اور کامياب رہى۔ میں آج کے طلبا و طالبات سے یہ کہنا چاہوں گى کہ کبھى بھی ناکامى سے مايوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ وہ اپنى غلطى اور ناکامى سے سبق سیکھنے والے بنیں،اپنا جائزہ ليتے رہا کريں کہ کہاں کمى ہے اوراس کے حل کے لیے کسى بڑے يا استاد سے راہنمائى لیں، وقت کى قدر کريں، موبائل فون کو اپنے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کريں، سوشل ميڈيا کم سے کم استعمال کريں تو ان شاء اللہ آنے والا وقت آپ کا ہو گا۔محنت سے ہى زندگى میں کاميابيوں کے ایسے پھول کھلتے ہیں جن پر کبھى خزاں نہیں آتى ، محنت سے ہى زندگى گل وگلزار ہوتى ہے ، اس لیے اپنى زندگيوں میں محنت ،مثبت سوچ اور مشقت سے رنگ بھریے۔