(محمد یوسف وحید (خان پور
حمزہ کے والد ایک سرکاری سکول میں استاد تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی محنت اور ایمان داری کے اصولوں پر گزاری تھی اور اپنی اولاد سے بھی وہ انہی اصولوں پر زندگی بسر کرنے کی توقع رکھتے تھے۔ حمزہ دو بہنوں کا اکلوتا اور نہایت لاڈلا بھائی تھا۔ اکلوتا ہو نے کے باعث اس کے والد نے اسے شہر کے مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی تھی۔ حمزہ نے بھی ایک اچھا بیٹا ہو نے کا فر ض ادا کر تے ہو ئے میٹرک میں شان دار نمبروں سے کامیابی حاصل کی، لیکن کالج میں داخل ہو تے ہی وہ ایک نئی دنیا سے روشناس ہوا۔ اس کی دوستی کالج کے امیر اور بگڑے ہو ئے لڑکوں سے ہو گئی، پھر اُن کی دیکھا دیکھی اس کی فرمائشیں بھی بڑھنے لگیں۔ پہلے اس نے گھر والوں سے موبائل فون لے کر دینے کی فرما ئش کی، جس پر اس کی آپا نے اسے سمجھایا کہ تمہیں موبائل فون کی کیا ضرورت ہے، لیکن اپنی ضد کے آگے حمزہ نے کسی کی ایک نہ چلنے دی اور موبائل فون لے کر ہی دم لیا۔ پھر کچھ دن بعد اس نے ضد کر کے گھر پر انٹرنیٹ کنکشن بھی لگوا لیا، جس کا استعمال وہ کسی مثبت سرگر می کے لیے نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے گھر والے اس کے لیے بہت پر یشان رہتے تھے۔ حمزہ کے ابو کی ریٹائرمنٹ قریب تھی اور وہ چاہتے تھے کہ حمزہ اپنی تعلیم مکمل کر کے ان کا سہارا بنے۔
وہ 31 دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے سارے منچلے نوجوان پرجوش لگ رہے تھے، باہر سے ہوائی فائرنگ، تیز میوزک اور آتش بازی کی آوازیں آرہی تھیں۔ چند لڑکے تیزی سے سائیکل چلاتے ہوئے گلی سے گزرے۔ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلوں کی بے ہنگم آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ حمزہ کی امی اور بہنیں نماز ادا کر کے کمرے سے باہر نکلیں تو انہوں نے حمزہ کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ موبائل فون پر اپنے کسی دوست سے باتیں کر رہا تھا: ہاں یار! زبر دست بائیک ہے اور کافی مہنگی بھی ہے۔ اتنے میں حمزہ نے اپنی امی کو دیکھ کر کہا: امی! میں دوستوں کے ساتھ ہیپی نیو ایئر نائٹ منانے جا رہا ہوں۔
بیٹا! آج تم نہ ہی جاؤ تو بہتر ہے، باہر ہنگامہ برپا ہے، مجھے فکر لگی رہے گی، حمزہ کی امی بولیں۔
امی! فکر کی کیا بات ہے؟ نئے سال کی خوشی منائی جا رہی ہے، میں جلدی واپس آ جاؤں گا، حمزہ یہ کہہ کر گھر سے نکل گیا۔
نئے سال کے آغاز پر خوشی منانے کا یہ کون سا طریقہ ہے، یااللہ! اس لڑکے ہدایت دے، حمزہ کی امی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
بازار میں سڑک کے دونوں اطراف منچلوں کا ہجوم تھا، جیسے کوئی میلہ سا لگا ہو۔ کچھ منچلے ون ویلنگ کر رہے تھے۔ ایک لڑ کے نے بائیک روکی اور دوسرے لڑکے کو اپنے پیچھے بیٹھنے کی آفر کی۔ اس کے پیچھے بیٹھتے ہی وہ اپنی بائیک کا اگلا پہیہ اُوپر اُٹھا کر بائیک کو چلا نے لگا اور اس دوران اچانک بائیک بے قابو ہو کر فٹ پاتھ سے جاٹکرائی۔ بائیک کے پیچھے بیٹھے لڑکے کو شدید چوٹیں آئیں تھیں۔ وہ زخمی لڑکا حمزہ تھا ۔
ہسپتال میں جب حمزہ کو ہوش آیا تو سب سے پہلے اس کی نگاہ اپنے امی، ابو اور بہنوں پر پڑی، جو نہایت پریشانی سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر انہیں تسلی دے رہا تھا: آپ کے بیٹے کی دائیں ٹانگ دو جگہ سے فریکچر ہوئی ہے، انشا ء اللہ بہت جلد صحت یاب ہو جائے گا، یہ سب آپ کی دعائیں ہیں کہ آپ کا بیٹا معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا ہے۔
حمزہ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر پھیل گئے۔ وہ اس وقت بہت زیادہ ندامت محسوس کر رہا تھا۔