میں کاغذ کا اک ٹکڑا ہوں

محمد تاشف اعجاز (چشتیاں)

میں 100روپے کی قیمت کا حامل کاغذ کا ایک رجسٹر ہوں۔ میرا رنگ سفید ہے۔ سرخ اور نیلے رنگ کے حاشیے میری شان و شوکت میں اضافہ کرتے ہیں۔ کاغذوں کی فیکٹری میں مجھے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ رجسٹر میں ڈھال کر ایک بنڈل کی شکل میں شہر  کے سب سے بڑے بک ڈپو کے حوالے کر دیا گیا۔ میں بک ڈپو کے ایک کاؤنٹر پر چپ چاپ پڑا  رہتا۔ ایک دن یوسف کے والد مجھے خرید کر اپنے  گھر لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ یوسف مجھے سنبھال کر رکھے گا مگر اس نے مجھ پر کارٹون بنائے اور میرے صفحے پھاڑ کر مجھے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اپنی اس حالت پر مجھے بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور تکلیف سے میرے آنسو نکل آئے۔  لوگوں کو کیا پتہ کہ مجھے کیسے بنایا جاتا ہے اور میری کیا اہمیت ہے۔ میرے آباؤ اجداد کا تعلق چین سے ہے۔ پہلے مجھے پتوں کو پیس کر پانی میں گوندھ کر بنایا جاتا تھا۔ پھر جدید دور آیا اور اب مجھے گندم اور گنے کے بھوسے سے کارخانوں میں بنایا جاتا ہے۔ مجھے پانی میں بار بار پکا کر صاف کیا جاتا ہے۔ رنگ مخصوص کرنے کے لیے کیمیکل ڈالے جاتے ہیں پھر پریس کر کے کاٹا جاتا ہے۔  مجھے مختلف کوالٹی میں بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ  ہے کہ مجھے بار بار پکا کر، پریس کر کے اور کاٹ کے مجھے مسلسل  تکالیف سے گزارا جاتا ہے۔ مجھے بنانے میں بہت محنت ہوتی ہے۔ طالب علم میرے ذریعے علم حاصل کر کے بڑے آدمی بن سکتے ہیں، لیکن مجھے بہت زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب میرے خوب صورت اجلے صفحات پر سبق اور ہوم ورک لکھنے کی بجائے  کارٹون اور بے وجہ لکیریں لگا کر  انہیں پھاڑ دیا جاتا ہے۔ طالب علم وعدہ کریں کہ میرے مجھے صرف ہوم ورک اور سکول کا  سبق لکھنے  کے لیے استعمال کریں گے اور مجھے پیار سے سنبھال کر رکھیں گے۔

شیئر کریں
667
6