حق نواز (رحیم یار خان)
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں ميں ايک غريب لکڑہارا رہتا تھا۔ وہ روزانہ جنگل سے لکڑياں کاٹ کر لاتا اور انہیں بيچ کر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پيٹ پالتا تھا۔ لکڑہارا بہت غريب ليکن ايمان دار، رحم دل اور اچھے اخلاق والا آدمی تھا۔ وہ ہميشہ دوسروں کے کام آتا اور بے زبان جانوروں، پرندوں وغيرہ کا بھی خيال رکھتا تھا۔ ایک دن جنگل ميں لکڑياں اکٹھی کرنے کے بعد وہ کافی تھک گيا اور ايک سایہ دار درخت کے نيچے سستانے کے ليے ليٹ گيا۔ ليکن جيسے ہی اس کی نظر اوپر پڑی اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔اس نے ديکھا کہ ايک سانپ درخت پر بنے ہوئے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس گھونسلے ميں کوّے کے بچّے تھے جو سانپ کے ڈر سے چيں چيں کر رہے تھے۔ بچّوں کے ماں باپ دونوں دانہ چگنے کہيں دور گئے ہوئے تھے۔
رحم دل لکڑہارا اپنی تکان بھول کر فوراً اُٹھ بیٹھا اور کوّے کے بچّوں کو سانپ سے بچانے کے ليے درخت پر چڑھنے لگا۔ سانپ نے خطرہ بھانپ ليا اور گھونسلے سے دور بھاگنے لگا۔ اسی دوران کوّے بھی لوٹ آئے ۔لکڑہارے کو پيڑ پر چڑھا ديکھا تو وہ سمجھے کہ اس نے ضرور بچّوں کو مار ديا ہوگا۔ وہ غصّے ميں کائيں کائيں چِلّا نے لگے اور لکڑہارے کو چونچيں مارمار کر اَدھ مواکر ديا۔ بے چارہ لکڑہارا کسی طرح جان بچا کر نيچے اُترا اور چين کی سانس لی۔
ليکن جب کوّے اپنے گھونسلے ميں گئے تو بچّے خوف کے مارے وہاں دُبکے ہوئے بیٹھے تھے، بچّوں نے ماں باپ کو ساری بات بتا دی اور تب ہی انہوں نے ديکھا کہ سانپ بھی درخت سے اُتر کر بھاگ رہا ہے۔ اب کوّوں کو اپنی غلَطی کا احساس ہوا۔ وہ بہت زيادہ شرمندہ ہوئے ۔کوّے لکڑہارے کا شکريہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ کوّے نے گھونسلے ميں رکھا ہوا اصلی موتيوں کا قیمتی ہار جو انہیں کچھ ہی دن پہلے گاؤں کے تالاب کے کنارے ملا تھا، اُٹھا کر لکڑہارے کے آگے ڈال ديا اور نزدیکی درخت کی شاخ پر بیٹھ کر کائيں کائيں کرنے لگے، جيسے وہ اپنے بچوں کی جان بچانے پر رحم دل لکڑہارے کا شکريہ ادا کر رہے ہوں۔ غريب لکڑہارا بھی قیمتی ہار پا کر بہت خوش ہوا۔ جب لکڑہارا لکڑيوں کا گٹھّا سر پر اُٹھا کر اپنے گاؤں کی طرف چلا تو کوّے بھی اس کے اوپر کائيں کائيں کرتے اُڑ رہے تھے، ليکن چونچ مارنے کے ليے نہيں بلکہ اسے دور تک الوداع کرنے کے لیے۔