ملک محمد رفیع کالرو(لیہ)
ایک وقت تھا جب خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے مل کر، رشتے داروں سے مل کر، نیکی کر کے، کسی کی مدد کر کے۔ میٹرک کر لی، ایم اے کر لیا، شادی کر لی، عمرہ اور حج کر لیا اور چھوٹا سا گھر بنا لیا۔ اولاد ہو گئی، بڑی بھی ہو گئی، اولاد کی شادیاں کر لیں، نانے، نانیاں اور دادے دادیاں بن گئے۔ سب کچھ آسان تھا اور سب خوش تھے۔ پھر ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کر دی۔ بچہ کون سے سکول داخل کرانا ہے، پوزیشن کون سی آئی، لڑکا کیا کرتا ہے، گاڑی کون سی ہے، تنخواہ کیا ہے، کپڑے برانڈڈ چاہییں۔ پھر گھر اوقات سے بڑے ہو گئے ۔ذرائع آمدن نہیں بڑھے۔ قرضوں پر گاڑیاں، موٹرسائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آ گئے۔ پھر پانی، بجلی، گیس، کیبل کے بل۔ پھر بچوں کی وین، بچوں کا ڈرائیور، موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ۔ پھر فاسٹ فوڈ، باہر کھانے، پارٹیاں، پسند کی شادیاں، بیوٹی پارلر۔ اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزہ لے رہے ہیں لیکن ہم نے خوشی کو کھو دیا۔ خوشی کی مقدار کا تعین سادہ زندگی میں ہے۔ اپنی زندگی کو سادہ بنائیے، تعلق بحال کیجیے، دوست بنائیں، واٹس ایپ اور فیس بک کا استعمال کم کیجیے، ملیے، مسکرائیے، دوستی کی باتیں کیجیے۔ دوستوں کو دبانے کے لیے ڈگریوں، کامیابیوں اور فیکٹریوں کا ذکر مت کیجیے۔ پرانے وقت میں جائیں جب ایک ٹافی کے دو حصے کر کے کھاتے تھے۔ آؤ پھر سے خوش رہنا شروع کرتے ہیں۔