آج کا کام کل پر مت چھوڑیں

محمد فرحان امجد (خانیوال)

ایک دفعہ ایک کسان گاؤں سے سوداسلف لینے کے لیےشہر آیا۔ اس نے ایک دوکان پر لکھا دیکھا کہ یہاں عقل کی باتیں فروخت ہوتی ہیں ۔ اس نے دکان دار سے کہا کہ عقل کی ایک بات کتنے کی ہے؟ دکان دار بولا: میں ایک روپے میں ایک حرف فروخت کرتا ہوں۔ کسان نے سولہ روپے دیے اور کہا مجھے عقل کے  سولہ حروف بتا دو۔ دکان دار نے کسان سے پندرہ روپے لے کر اسے ایک کاغذ پر یہ لکھ دیا کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔ کسان وہ کاغذ لے کر گاؤں واپس آگیا۔ کسان شام کے وقت گاؤں پہنچا۔ گندم کی فصل کٹ کر تیارہوچکی تھی۔ اس نے سوچا کہ میں صبح ساری فصل سمیٹ کر گھر لے جاؤں گا۔ پھر ایک دم اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں نے آج سولہ روپے خرچ کرکے عقل کی بات خریدی ہے کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔  مجھے یہ فصل آج ہی گھر لے جانی چاہیے۔ اس نے اسی وقت مزدوروں کو بلوایا اور کہا کہ یہ فصل ابھی میرے گھر پہنچا دو۔ مزدوروں نے بھی کہا کہ اب شام ہوگئی ہے، بارش کا بھی کوئی امکان نہیں، ہم صبح یہ فصل آپ کے گھر پہنچا دیں گے مگر کسان نہ مانا بلکہ اس نے کہا کہ میں نے آج ہی سولہ روپے میں عقل کی بات خریدی ہے کہ آج کا کام کل پرنہیں چھوڑنا چاہیے۔ پس میں آج ہی یہ فصل گھر لےکر جانا چاہتا ہوں۔ مزدوروں نے وہ فصل رات میں ہی کسان کے گھر پہنچا دی ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی رات تیز آندھی کے ساتھ بارش ہوئی۔ باقی تمام لوگوں کی فصل کھیتوں میں ہونے کی وجہ سے بھیگ کر خراب ہوگئی جب کہ کسان کی فصل بروقت گھر پہنچنے کی وجہ سے بچ گئی۔ وقت پر کام کی وجہ سے کسان بہت بڑے نقصان سے محفوظ ہوگیا۔

شیئر کریں
1029
7