خنسہ افضل (وہاڑی)

میں ایک بسکٹ ہوں۔ آج کل کے لوگ مجھے کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن میں آج آپ کو اپنی آپ بیتی سناتا ہوں کہ مجھے یہاں تک یعنی ایک بسکٹ بننے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کتنے مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ ایک دن ایک کسان نے اپنے  کھیت میں ہل چلایا اور پھر اس میں اناج کے کچھ بیچ بوئے۔ کسان نے اپنی فصل کی دن رات دیکھ بھال کی۔ پھر زمین سے کچھ پودے نمودار ہوئے اور یہ میرے زندگی کا سب سے پہلا مرحلہ تھا۔ پھر یہ کھیت پک کر تیار ہوا تو ہمارے دانے نکال کر کچھ لوگ فیکٹری میں لے گئے۔ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ بہت خوش تھا۔ ہم سب ایک نئی جگہ پر جارہے تھے۔ ملازموں نے ہمیں چکی کے اندر ڈال کر پیس دیا تو یوں ہمیں آٹے کے طور پر ایک نئی شکل دی گئی۔ پھر میرے اندر پانی چینی، انڈے اور فلور ڈال دیا گیا۔ نئی شکل میں ڈھالنے کے بعد ہمیں اوون میں رکھ دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں ایک مکمل بسکٹ بن گیا۔ پھر مجھے میرے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شاپر میں پیک کر دیا گیا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ پیک کیے جانے کے بعد ہمیں  ایک تاجر خرید کر اپنی دوکان پر لے گیا۔ وہاں سے ایک دن ایک شہری نے مجھے خرید لیا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو پلیٹ میں سجا کر مہانوں کو پیش کیا۔ ان لوگوں نے میرے کچھ ساتھیوں کو چائے میں ڈبویا اور کھا گئے۔ مجھے ان کی وفات اور کھائے جانے کا بہت دکھ ہو رہا تھا لیکن کچھ سکینڈ بعد ایک بچے نے مجھے اٹھایا اور نگل گیا۔ یوں میرا اختتام ہو گیا۔

شیئر کریں
661
5