محمد احتشام (بہاول پور)

میں چائے ہوں۔ لوگ مجھے ذوق و شوق سے نوش کرتے ہیں۔ میرا جنم چوتھی صدی عیسوی کی ابتدا میں چین میں ہوا۔ یورپ میں سو لہویں صدی میں مجھے ایک مشروب کے طور پر پیا جانے لگا اور اس کے فوراً بعد امریکامیں میرا رواج عام ہو گیا۔ انگریز لوگ جو کافی پینے کے عادی تھے وہ میری طرف راغب ہونے لگے لیکن  جب برطانوی حکومت نے مجھ پر ٹیکس عائد کیا تو یہ لوگ دوبارہ کافی کی طرف لوٹ آئے۔ برصغیر پاک و ہند میں میرا رواج آج سے ساٹھ ستر سال پہلے شروع ہوا اور آج ہر گھر میں مجھے ایک ضروری عنصر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ میری موجودہ شکل تین کیفین، بٹین اور بہت سے اڑ جانے والے اور مہک پیدا کرنے والے اجزاء پر مشتمل ہے جو مجھے  ذائقہ اور خوشبو عطا کرتے ہیں۔ ایک قدیم چینی داستان کے مطابق ایک دفعہ بدھ مت کے ایک پیروکار کو عبادت کے دوران نیند آ گئی۔ جب وہ بیدارہوا تو اس نے اپنے پیوٹے کاٹ کر زمین پر پھنک دیے۔ اس کے پیوٹوں سے اس جگہ پر میرا پودا پھوٹ پڑا جو ایک جھاڑ سی بن گیا. میرےپودے کے پتوں میں نیند کو بھگانے والی خصوصیات موجود تھی۔ مجھےخالی پیٹ پینے سے بھوک میں کمی اور ہاضمے میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور آنتوں میں خراشیں پیدا ہو سکتی ہیں. مجھے تیار کر کے جلدی پی لینا چاہیے کیوں کہ دیر تک پڑے رہنے سے مجھ سے مہک نکل جاتی ہے۔ مجھ پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مجھ کو تیار کرنے  کے تین سے پانچ منٹ کے اندر ہی لینا چاہیے۔

شیئر کریں
682
9