پاکستانی قوم کی ترقی کا سفر

غلام اکبر جاوید (راجن پور)

یہ ایک مسلمہ  حقیقت ہے کہ حال سے بے اعتنائی برتنے والے افراد اور مستقبل پر نظر نہ رکھنے والی قومیں تباہی وبربادی کے عمیق غار میں جا گرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘اور انسان کےلیے کچھ نہیں سوائے اس کے جتنی وہ کوشش کرتا ہے’۔ جہد مسلسل کے پروانے اور محنت پر یقین رکھنے والی قومیں دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہوں، وہ اقوام عالم کو ورطہ ء حیرت میں ڈال کر اپنا نام سنہری حروف سے رقم کرواتی ہیں۔ جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے اس میں گراں قدر خصوصیات پوشیدہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے ان سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جائے۔ انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی ہو یا قطب الدین ایبک کی پہلی مسلمان حکومت کی بنیاد، کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ کی تنصیب ہو یا چاغی کے ایٹمی دھماکوں کا ذکر۔ محنت کے عنصر اور مسلمانوں کے ذہنوں کی زرخیزی کو کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز میں قدرتی وسائل کے انبار، دنیا کا بہترین نہری نظام، گرم پانیوں کی وجہ سے بندر گاہیں سارا سال کھلی ہوئی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے ہر وقت تیار۔ اسلامی دنیا کی سربراہی کا مقام شرف اور تو اور اس وطن عزیز کے نڈر سپوت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے چاغی کے ایٹمی دھماکے کر کے لادینی طاقتوں کے گلے میں تیر پیوست کرکے رکھ دیے۔ پاک وطن کی بقاء کے لیے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل، ٹیپو سلطان کی بہادری اور قیادت، طارق بن زیاد کا جذبہ جہاد اور حضرت علامہ اقبال کی فکر بیدار کرنا ہو گی۔ ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر یقینی طور پر مساوات و محبت کی تجلی، معاشرت اور معیشت کے پھولوں کی رنگینی، تقدیس و پاکیزگی کی جہت، شریعت کے باغ کی پھبن، نظام عبادت و عقیدت کی رعنائی، اخلاق و مروت کی زیبائی، مساوات و برابری کا فرش، اخوت کی جہانگیری کا حسن اور اتحاد و اتفاق کا گلشن بطریق احسن پیدا کیا جا سکتا ہے۔

شیئر کریں
335
1