کلیم احمد (لیہ)
برصغیر پاک وہند میں مغلوں کا دور حکومت سنہری زمانہ کہلاتا ہے۔ نور الدین سلیم جہانگیر کا عدل مشہور ہے۔ اس نے اپنے محل کے باہر زنجیر عدل لٹکا رکھی تھی۔ کوئی بھی فریادی اور مفلوم اس زنجیر کو کھینچ کر بادشاہ سے انصاف حاصل کر سکتا تھا۔ اس سلسلے میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہ تھی۔ مہرالنساء نور جہاں جہانگیر کی چہیتی ملکہ تھی۔ اسے بڑی قدر و منزلت حاصل تھی یہاں تک کہ وہ شاہی فرمان بھی جاری کر سکتی تھی۔ بہت کم عورتوں کو ایسا اقتدار ملا۔ ایک دن نور جہاں اپنے محل کی بالکنی میں بیٹھی ہوئی بیرونی منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ ایک شامت کا مارا راہ گیر محل کے نیچے سے گزرا۔ اچانک اس کی نظر نور جہاں پر پڑی تو وہ ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگ گیا ۔ نور جہاں نے اسے گستاخی سمجھتے ہوئے اس راہ گیر پر تیر چلا دیا اور وہ مر گیا۔ مرنے والا راہ گیر ایک دھوبی تھا۔ اس کی بیوی کو خبر ہوئی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی۔ وہ بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہو چکے تھے ۔
یہ صدمہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ ایک مظلوم عورت تھی اور انصاف کی طلب گار تھی ۔ اسے اپنے بادشاہ جہانگیر کے عدل وانصاف پر پورا اعتماد تھا چنانچہ اس نے محل پہنچ کر زنجیر عدل کھینچی۔ جہانگیر نے اس کی فریاد سنی اور اسے مکمل انصاف کا یقین دلایا۔ جہانگیر نے ملکہ نور جہاں کو دربار میں طلب کیا۔ وہ ایک عام ملزم کی طرح پیش ہوئی۔ جہانگیر نے نور جہاں کا بیان لیا۔ اس نے اعتراض کر لیا کہ وہ واقعی قاتلہ ہے اس نے راہ گیر کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ گستاخی کا مرتکب ہوا تھا۔
جہانگیر نے دربار کے قاضی سے پوچھا کہ اس معاملے میں شریعت اسلامی کا کیا حکم ہے؟قاضی نے فتویٰ دیا کہ شریعت میں قتل کی سزا قتل ہے۔ جہانگیر نے قاضی کا فتویٰ سن کر فرمان جاری کیا کہ ملزمہ کو گرفتار کرکے لایا جائے اور اسے پھانسی پہ چڑھا دیا جائے ۔
شاہی فرمان سن کر دربار میں سنانا چھا گیا۔ نور جہاں کو گرفتار کر کے لے جانے لگے تو اس نے کہا کہ شریعت قتل کے بدلے خون بہا کی بھی تو اجازت دیتی ہے۔ اس پر جہانگیر نے دوبارہ قاضی سے فتویٰ پوچھا۔ قاضی نے کہا کہ خون بہا کی اس صورت میں اجازت ہے کہ مقتول کے قریبی رشتہ دار رضا مند ہوں۔ مقتول کی بیوہ دربار میں موجود تھی۔ وہ عدل وانصاف کا یہ مظاہرہ دیکھ کر متاثر ہوئی۔ وہ بولی جہاں پناہ! مجھے انصاف مل گیا ہے ۔میں اپنے شوہر کا خون معاف کرتی ہوں۔ ملکہ نور جہاں نے اسے زرو جواہر سے مالا مال کر دیا۔ بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ اخلاقی سبق ملتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔