عبدالہادی (راجن پور)
کہتے ہیں کہ ایک طوطےاور طوطی کا گزر ایک ویران علاقے سے ہوا ۔ ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطےسے کہاکہ کس قدر ویران گاؤں ہے۔ طوطے نے کہا لگتا ہے کہ یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے۔ جس وقت طوطا اور طوطی باتیں کر رہے تھے، عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہو کر بولا: تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو۔ آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ الو کی محبت بھری دعوت سے طوطےکا جوڑا انکار نہ کر سکا اور انہوں نے الوکی دعوت قبول کرلی۔ کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو الو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا تم کہاں جا رہی ہو؟ طوطی پریشان ہو کر بولی :یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔ الو یہ سن کر ہنسااور کہا : یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم تو میری بیوی ہو۔ اس پہ طوطااور طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور ان کے درمیان گرما گرمی شروع ہو گئی۔
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی توالونے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا : ایسا کرتے ہیں کہ ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں، قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا۔ الو کی تجویز پر طوطااور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ۔ قاضی نے دلائل کی روشنی میں الو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی۔ طوطااس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو الو نے اسے آواز دی: اوہ بھائی! اکیلئے کہاں جاتے ہو، اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ۔ طوطے نے حیرانی سے الوکی طرف دیکھا اور بولا : اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے، عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے۔ الو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے کہا: نہیں دوست! طوطی میری نہیں، تمہاری ہی بیوی ہے، میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے۔ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔