اندھیر نگری چوپٹ راج

محمد شاہ زیب (مظفر گڑھ)

کسی بستی میں  ایک گرو  اپنے چیلے کے  ہمراہ  رہتا  تھا۔  ایک دن اس نے چیلے سے کہا کہ اب اس بستی میں دل نہیں لگتا لہذا  کسی اور بستی کا  رخ کرتے ہیں جہاں خوب پیٹ بھر کھانا ملے۔ چیلے نے کہا ، گرو جی!  بزرگوں کا قول ہے  کہ  آدھی  کو چھوڑ کر پوری پر مت جانا چاہیے،  اگر اس بستی میں بھیک نہ ملی اور کھانابھی مہنگا ہوا تو کیسے گزارا ہو گا۔ گرو نے اسے تسلی دیتے  ہوئے  کہا  کہ میں نے بھیک سے کافی دولت جمع کر رکھی ہے،  اسی سے گزر بسر کر لیں گے۔ چنانچہ دونوں سفر پر نکل پڑے اور بہت دور ایک بستی میں جا پہنچے۔ چیلے نے ایک شخص سے بستی کا نام پوچھا تو اس نے بتایا  اس بستی کو اندھیر نگری  کہتے ہیں اور اس بستی پر راجاچوپٹ کا راج ہے۔ وہ دونوں بازار پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ اندھیر نگری میں ٹکے سیر بھاجی اور ٹکے سیر کھاج ملتا ہے۔ گرو نے چیلے سے کہا میں نہ کہتا تھا کہ یہ بستی ہماری بستی سے اچھی ہو گی۔ ہر طرف آرام اور سکون ہے، مہنگائی نام کی چیز نہیں ہے۔ دونوں ہنسی خوشی اس بستی میں رہنے لگے۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ اندھیر نگری کے چوپٹ راجا کے محل کی دیوار اچانک گر گئی۔ راجا کو یہ بات ناگوار گزری۔ اس نے معمار کو بلا  کر دیوار گرنے کی  وجہ  پوچھی۔ معمار نے کہا حضور ! دیوار گرنے کی وجہ تعمیر سے قبل اس کی بنیادوں میں درست پانی نہ لگایا جانا ہے۔ اس کے ذمہ دار بہشتی کو بلایا گیا اور سزائے موت سنا دی گئی۔ بہشتی نے عرض کی، عالی  جاہ! میں تو ان دنوں بیمار تھا۔ اب بادشاہ نے معمار کو پھندا ڈالنے کا حکم دیا مگر پھندا معمار کے گلے سے بڑا نکلا تو حکم جاری ہوا کہ ایسے شخص کو پھانسی پر چڑھایا جائے جس کے گلے میں پھندا پورا آ جائے۔ سپاہیوں نے ایسے شخص کو تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ آخر کار ان کو گرو مل گیا جس کا گلا اس پھندے کے مطابق پورا تھا۔گرو جی بہت سٹپٹائے مگر جہاں اندھیر نگری  اور چوپٹ راج ہو وہاں اس کی کون سنتا۔ اس موقع پر چیلے نے گرو سے کہا، گرو جی! میں نہ کہتا تھاجس بستی میں ٹکے سیر بھاجی اور ٹکے سیر کھاج ملتا ہو اور وہاں چوپٹ راج کرتا ہو وہاں بے قصور آدمی کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جو آپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔

شیئر کریں
4361
69