آمنہ وارث (بہاول نگر)
میں ایک تصویر ہوں جسے بہت خوب صورت رنگوں سے سجایا گیا تھا۔ میرے ہر نقش پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ مصور نے مجھے بہت ذوق سےکئی دنوں میں مکمل کیا۔ ایک دن وہ مجھے اپنے ساتھ ایک بڑی نمائش میں لے گیا۔ ہر آنے والے کی نظر مجھ پر ضرور پڑتی اور وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ میرا مصور میری وجہ سے میدان مار چکا تھا۔ ایک آدمی ایک شان دار کار میں آیا اور مجھے خرید کر اپنے ساتھ لے گیا۔ میرے نئے مالک نے مجھے گھر لا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دیا۔ اس دیوار پر میرے جیسی اور بھی میری بہنیں تھیں لیکن ہر آنے والا مہمان میری ہی تعریف کرتا تو میں پھولے نہ سماتی۔ اب وقت کے ساتھ میری چمک ماند پڑنے لگی تھی۔ مالک کے ننھے بچے جومجھے بڑے اشتیاق سے تکتے تھے اب جوان ہو رہے تھے۔ ایک دن میں نے ان کو آپس میں بات کرتے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ابا جان نے تصویر کی جگہ ایل سی ڈی لگوانی ہے۔ میں بہت پریشان ہوئی، میرے تو رنگ ہی اڑ گئے۔ جب مالک کے چھو ٹے بیٹے نے بڑے بھائی سے پوچھا کہ ہم اس تصویر کا کیا کریں گے تو وہ بولا کہ ہم اسے پھینک دیں گے اور اس کی جگہ ایل سی ڈی لگا دیں گے تا کہ نت نئے پروگراموں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہاں سے میری بربادی کا آغاز ہو گیا۔ مالک کی بیوی نے ملازمہ سے ہمیں اتروا کر کباڑ خانے میں رکھوا دیا۔ کہاں ڈرائنگ روم کی چکا چوند روشنیاں اور کہاں کباڑ خانے کا گھپ اندھیرا۔ میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میری زندگی کے آخری دن آ چکےتھے۔ میری جگہ ایک 32 انچ کی ایل سی ڈی نے لے لی تھی۔ ملازمہ مجھے مالک کی اجازت سے اپنے گھر لے گئی جہاں اس نے مجھے چولہے میں جلا دیا۔ میرا خوب صورت فریم اور میرا جسم سب جل کر راکھ ہو چکے تھے۔