زنیرا گل (ڈیرہ غازی خان)
کسی گاؤں میں ایک غریب اور محنتی لکڑہارا رہتا تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام حارث تھا اور جو چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ حارث ایک ذہین طالب علم تھا مگر اس میں بری عادت تھی کہ وہ خوش اخلاقی سے زیادہ ظاہری خوبیوں اور نمود نمائش کو پسند کرتا تھا۔ لکڑہارا اپنی غربت کے باعث اس کی خواہشات کو پورا کرنے سے قاصر تھا لیکن اپنی استطاعت اور مالی استعداد کے مطابق وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی خواہشات کو پورا کرنے کی ہرنممکن کوشش کرتا۔ ایک دن حارث کو سکول کی چھٹی تھی۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ بھی جنگل میں ان کے ساتھ لکڑیاں کاٹنے جائے گا۔ لکڑہارا نہیں چاہتا تھا کہ وہ جنگل میں جا کر مشقت اٹھائے، اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو منع کرتے ہوئے کہا کہ جنگل میں تمھیں پریشانی ہو گی، وہاں کیڑے مکوڑے اور خطرناک جانور ہوں گے جو تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن حارث نے ایک نہ مانی۔ لکڑہارے نے اپنے بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان لی اور اسے اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا۔ جنگل جا کر حارث اپنے والد کو محنت کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ لکڑیاں کاٹتے وقت لکڑہارے کے ہاتھوں میں کانٹے چبھ جانے کے باعث خون نکلنے لگا تھا، جب حارث نے اپنے والد کے زخمی ہاتھ دیکھے تو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے والد سے کیسی فضول خواہشات پوری کرنے کے لیے ضد کرتا رہا، اس نے لکڑیاں کاٹنے میں اپنے باپ کی مدد کی۔ شام کو جب دونوں گھر آئے تو حارث نے اپنے والد سے معافی مانگتے ہوئے فضول خواہشات سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی ان خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دے گا۔ پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں بے جا اور ظاہری خواہشات سے بچنا چاہیے اور ظاہری خوبیوں سے زیادہ اپنے اخلاق بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے۔