میمونہ ندیم (راجن پور) :———-

پیارے بچو! کسی جنگل میں ایک درخت پر چڑیا کا گھونسلہ تھا۔ اسی جنگل میں ایک تتلی بھی رہتی تھی۔ تتلی کو اپنے رنگ برنگ پروں پر بہت غرور تھا۔ ایک دن چڑیا آم کی ڈالی پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی اور ساتھ میں گانا بھی گا رہی تھی

چوں چوں چوں

میں ہوں جنگل کی رہنے والی

میرا گھر ہے آم کی ڈالی

چوں چوں چوں


تتلی نے چڑیا کا گانا سن کر کہا: اری چڑیا بی! بس آواز ہی آواز ہے تمھاری، مجھے دیکھو کتنی اچھی شکل ہے میری، کہاں میرے نیلے اور سنہرے پَر اور کہاں تمھاری بھوری رنگت۔ چڑیا بولی مجھے اللہ تعالیٰ نے جیسا بنایا ہے اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ درخت کے نیچے ایک بلی بیٹھی ہوئی تھی۔ چڑیا اور تتلی کی باتیں سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔

چڑیا نے بلی سے کہا کہ میری آواز زیادہ خوبصورت ہے یا تتلی کی شکل؟ بلی نے کہا کہ مجھ بوڑھی کو نہ تو تتلی کی شکل نظر آتی ہے اور نہ ہی تمھاری آواز سنائی دیتی ہے، تم دونوں میرے پاس آ کر بیٹھو، شاید تمھارے قریب بیٹھنے سے مجھے آواز سنائی اور شکل بھی دکھائی دے۔

اسی درخت کی ایک ڈال پر طوطا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ یہ باتیں سن کر بہت ہنسا اور بولا: ارے بی چڑیا! بلی کو نہ تو تمھاری آواز سے غرض ہے اور نہ ہی اسے تتلی کی شکل سے دلچسپی ہے۔
ایک کوا زمین پر کچھ چُگ رہا تھا وہ طنزیہ انداز میں بولا: بلی کو تو تمھاری صرف ایک ہی چیز پسند ہے۔

بلی یہ سن کر بہت خفا ہوئی اور غصے سے بولی: اس جنگل میں کتنے بدتمیز پرندے رہتے ہیں۔ میں تو تمھیں پیار سے بلا رہی تھی اور یہ کہتے ہیں کہ میں تمھیں کھانا چاہتی ہوں۔ بلی کی بات سن کر طوطا اور کوا بہت ہنسے۔
ابھی کوا اور طوطا دونوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ بلی نے موقع پا کر ساتھ بیٹھی تتلی پر جھپٹا مارا اور اسے کھانے کی کوشش کی، لیکن اس دوران چڑیا  نے فوراً اڑ کر بلی کی آنکھوں پر پنجہ مارا اور تتلی کو بولی: پیاری تتلی اُڑ جاؤ۔ تتلی تیزی سے اُڑ کر درخت کے سبز پتوں میں چھپ گئی۔ وہ چڑیا سے بہت شرمندہ ہوئی اور اپنے رویہ کی معافی بھی مانگی اور بولی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا۔

شیئر کریں
1848
22