سعدیہ نواز (بہاول نگر)
گزشتہ ہفتے ہماری کلاس کی انچارج نے ہمیں یہ خوشخبری سنائی کہ اتوار کو ہم سب لاہور میں مینار پاکستان کی سیر کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ سن کر سب طالبات کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے روز ہم علی الصبح لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ لاہور کا سفر طویل تو تھا ہی لیکن اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ خوش گپیوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم ہنسی خوشی لاہور پہنچ گئے۔ مقررہ مقام پر پہنچنے کے بعد ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر مینار پاکستان کی سیر کے لیے چلے گئے۔ جیسے ہی ہم گریٹر اقبال پارک پہنچے، ایک بلند و بالا مینار نظر آیا۔ اس وقت مجھے وہ وقت یاد آیا جب 23 مارچ 1940ء کو اسی پارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی، اور بعدازاں اس کی یاد میں یہ خوبصورت مینار تعمیر کیا گیا تھا۔ ہماری ٹیچر نے ہمیں اس سے متعلق تمام تاریخی واقعات سے آگاہ کیا۔ ہم نے بادشاہی مسجد کی سیر بھی کی۔ پھر ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور واپسی کی تیاری کرنے لگے۔ واپسی کا سفر بھی بہت دلفریب تھا۔ مینارپاکستان کی سیر کے دوران ہماری معلومات میں بہت اضافہ ہوا اور ہمیں قیام پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ ہماری ٹیچر نے بتایا کہ شان و شوکت سے کھڑا یہ مینار در حقیقت بہت سی مشکلات کا گواہ ہے جو قیام پاکستان کے وقت پیش آئیں۔ مینار پاکستان ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہمارا وطن پاکستان ایک مقصد کے تحت وجود میں آیا اور ہمیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے دل لگا کر تعلیم حاصل کرنی چاہیئے اور وطن کی خدمت کرنی چاہیئے۔