خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر سے آدھی ملاقات
شہر سخن میں منفرد لب و لہجہ رکھنے والی خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا شمار اردو ادب کے ان کے چند نمایاں شعراء میں ہوتا ہے جن کی شاعری کے اُسلوبِ بیاں نے کم عمری ہی میں انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔ پروین شاکر کی پوری شاعری اُن کے اپنے جذبات اور دردِ کائنات کے احساسات کا اظہار ہے۔ ان کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی،ڈراموں،افسانوں اور مقالوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ابھی فن وادب کے متوالے پوری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ خوشبو بکھیرتی پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کواسلام آبادمیں اپنے دفتر جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں 42 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ان کی وفات کے بعد سے ان کی یاد میں ہر سال اسلام آباد میں پروین شاکر اردو لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ انٹرویو پروین شاکر پر لکھی گئی مختلف کتب، مضامین و تحقیقی مقالہ جات سے اخذ کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
روشنی: مکمل نام اور پیار کا نام؟
پروین شاکر:سیدہ پروین شاکر۔ گھر میں سب پیار سے پارو یا پارہ کہتے تھے۔
روشنی: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟
پروین شاکر: میں بروز سوموار 24 نومبر 1952ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئی۔
روشنی: آبائی گھر؟
پروین شاکر:آباو اجداد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار میں چندن پٹی سے تھا۔ بعد میں میرے والد جون 1947ء کو بہار سے ہجرت کر کے کراچی آگئے۔
روشنی: والد اور والدہ کا نام؟
پروین شاکر:والد کا نام سید شاکر حسین اور تخلص ثاقب تھا، جبکہ والدہ کا نام افضل النساء عرف منن بیگم تھا۔
روشنی: والد کا پیشہ؟
پروین شاکر:کراچی میں ٹیلی کمیونیکیشن کے محکمے میں ملازمت کرتے تھے۔
روشنی: والد صاحب کا مزاج کیسا تھا؟
پروین شاکر:شریف النفس اور معصوم فطرت انسان تھے۔ لوگوں پر حد سے زیادہ بھروسا کرتے تھے۔
روشنی: آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور ان کے نام؟
پروین شاکر: ہم صرف دو بہنیں ہیں۔ بڑی بہن کا نام نسرین شاکر ہے۔
روشنی: بچپن کیسا گزرا؟
پروین شاکر:بچپن میں بہت شرارتی تھی۔ علم و ادب سے وابستہ گھرانے میں آنکھ کھولی تو کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی آ گئی۔
روشنی: فطرتاً طبیعت کیسی ہے؟
پروین شاکر:زیادہ حساس اور نرم مزاج طبیعت ہے۔ کوئی بات خلاف عادت ہو جائے تو مزاج خراب ہو جاتا ہے۔
روشنی: آپ کا لب و لہجہ شائستہ اور دھیما محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کو غصہ ہی نہیں آتا۔ کیا ایسا ہی ہے؟
پروین شاکر:(مسکراتے ہوئے) نہیں نہیں ……مجھے بہت غصہ آتا ہے، لیکن عموماً میرا غصہ، ٹھنڈا غصہ ہوتا ہے۔ میں غصے میں لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرتی ہوں اور دل ہی دل میں دکھی ہوتی ہوں۔
روشنی: ازدواجی زندگی کی شروعات کب ہوئی؟
پروین شاکر: 14اکتوبر1976ء کو۔
روشنی: شریک حیات کا نام بتائیے اور وہ کس پیشہ سے وابستہ ہیں؟
پروین شاکر:سید نصیر علی، آپ ملٹری میں ڈاکٹر کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
روشنی: آپ کے کتنے بچے ہیں؟ ان کے نام؟
پروین شاکر:صرف ایک بیٹاہے۔اس کا نام سید مراد علی ہے۔ میں پیار سے اسے گیتو پکارتی ہوں۔
روشنی: تعلیمی قابلیت؟
پروین شاکر:ابتدائی تعلیم رضویہ گرلز ہائی اسکول سے حاصل کی اور وہیں سے 1966ء میں میٹرک کی سند حاصل کی۔ 1968ء میں سعید گرلز کالج سے انٹر میڈیٹ کیا پھر 1971ء میں بی اے مکمل کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے دوران کراچی بورڈ اور کراچی یونیورسٹی میں قابلیت کی بنا پر وظیفہ بھی حاصل کیا۔جامعہ کراچی ہی سے 1972ء میں ایم اے انگریزی کیا اور ایم اے کی دوسری ڈگری لسانیات میں جامعہ کراچی سے 1981ء میں حاصل کی۔جب تعلیم سے دل نہیں بھرا تو 1992ء میں ماسٹرز ان بینکنگ ایڈمنسٹریشن ہارورڈ یونیورسٹی سے کیا اور پھر منیجمنٹ انفارمیشن کا کورس بھی مکمل کیا۔
روشنی: پسندیدہ رنگ؟
پروین شاکر: سبز اور گلابی رنگ۔
روشنی: پسندیدہ لباس۔
پروین شاکر:بچپن میں فراک میرا پسندیدہ لباس رہا۔ عموماً شلوار قمیص پسند ہے۔
روشنی: پسندیدہ شاعر؟
پروین شاکر:جان ڈن
روشنی: عموماًخواتین کو کچھ نہ کچھ جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے،اس حوالہ سے آپ کس چیز کا شوق رکھتی ہیں؟
پروین شاکر: مجھے کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ میری لائبریری میں 5 سے 6 ہزار کی تعداد میں کتب موجود ہیں۔
روشنی: شاعری کی طرف رجحان کیسے ہوا؟
پروین شاکر:خاندان میں ادبی ذوق کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ کئی نامور شخصیات پیدا ہوئیں۔ میرے والد صاحب خود بھی شاعر تھے۔ بیت بازی کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری ہی میں، میں نے لفظوں کی خوشبو اور ذائقے کو محسوس کرلیا۔ بس تبھی سے میں نے لفظوں سے رشتہ جوڑ لیا۔
روشنی: شاعری کے لیے اصلاح و رہنمائی کا موجب کون سی شخصیت تھی؟
پروین شاکر:حسن عسکری صاحب جیسی باذوق شخصیت کے سائے تلے اصلاح و رہنمائی ملتی رہی۔ ان کی تجربہ کار نگاہ نے میرے اندر موجود شعری صلاحیت کو بھانپ لیا اور اس سلسلے میں ابتدائی سبق دینا شروع کیا۔ آگے بھی میں اپنے نانا سے اصلاح لیتی رہی۔
روشنی: آپ نے پہلی نظم کب لکھی اور اس کا عنوان کیا تھا؟
پروین شاکر:پہلی نظم گیارہویں جماعت میں محترمہ عرفانہ عزیز کے اصرارپر چھ ستمبر یومِ دفاع کے موضوع پر لکھی اور اسے کالج میگزین میں اشاعت کے لیے دے دیا۔اس نظم کا عنوان صبحِ وطن تھا اس کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں
دفعتاً نور ہوا، آگے بڑھا اک جبریل
دل میں روشن کیے آزادی کی نوریں انجیل
عزم کی آگ تھی، ایماں کی حرارت دل میں
ظلمتیں پگھلیں، ترشنے لگی اک جمیل صبح وطن
اس نظم کو بے حد پسند کیا گیا۔ نانا نے حوصلہ افزائی کی اور علم عروض کی تعلیم دینا شروع کی اور مشقِ سخن کو جاری رکھنے کی تلقین بھی کی۔
روشنی: سنا ہے کہ آپ پہلے کسی اور قلمی نام سے لکھتی تھیں؟ اس کو ترک کرنے کی کیا وجہ تھی؟
پروین شاکر:جی بالکل درست سنا۔ میں پہلے بیناکے قلمی نام سے لکھتی تھی۔ یہ نام مجھے بہت خوب صورت لگتا ہے۔ ترک کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک الگ نام سے تخلص پالنا مجھے اچھا نہیں لگا۔
روشنی: کیا آپ خلوت پسند ہیں یا جلوت پسند؟
پروین شاکر:ایک فن کار کا اپنے آپ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں نا کہ فلاں کو تو اپنے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں تو اس کے لیے اپنی ذات کی پہچان از حد ضروری ہے۔ میں بھی خلوت پسند ہوں۔ اور تنہائی میں شاعری لکھتی ہوں اور مطالعہ کرتی ہوں۔
روشنی: سنا ہے کہ شاعر حضرات خود سے ہم کلام ہوتے ہیں، کیا آپ بھی خود سے باتیں کرتی ہیں؟
پروین شاکر:ہاں! میرے خیال میں اکثر میں خود سے باتیں کرتی ہوں۔ میرے بیٹے مراد نے بھی اکثر مجھے خود سے ہم کلام ہوتے دیکھا اور پھر مجھے بتایا۔
روشنی: آپ اپنا فارغ وقت کیسے گزارتی ہیں؟
پروین شاکر:مجھے مطالعے کا بہت شوق ہے تو میں فارغ وقت میں کتابیں پڑھتی ہوں یا پھر اکیلے ہی لمبی سیر کو جاتی ہوں۔ اپنے پاس میں ایک چھوٹی سی ڈائری رکھتی ہوں کہ کوئی شعر یا مصرع ذہن میں آ جائے تو فوراً نوٹ کرلوں۔
روشنی: کیا آپ کے بیٹے کا رجحان شاعری کی جانب ہوا؟
پروین شاکر:مراد نے شاعری کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ اسے نیورو سرجن بننے کا شوق تھا۔ ہاں البتہ میں نے اپنے بیٹے کی محبت میں ضرور شاعری کی۔ ایک شعر عرض کرنا چاہوں گی ؎
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
روشنی: کن شخصیات نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟
پروین شاکر:مشہور شاعرہ عرفانہ عزیز سے مجھے ہمیشہ عقیدت رہی ہے اور رہے گی۔ جو کچھ بھی میں آج ہوں وہ انہی کی حوصلہ افزائی اور اصلاح کا نتیجہ ہے۔ وہ میری ذہنی و روحانی استاد ہیں۔ اس کے علاوہ جس شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ محترمہ زاہدہ تقی (رضویہ گرلز سیکنڈری اسکول کی پرنسپل) ہیں۔ ان کے ا سکول میں،میں نے سات سال پڑھا۔ انہی کی حوصلہ افزائی سے میں نے میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں کامیابی پر اسکالر شپ حاصل کیا۔ ان کی طبیعت کا ستھرا پن، مذاق کی شائستگی اور مزاج کی سادگی نے میرے دل پر گہرے نقوش مرتسم کیے ہیں۔
روشنی: شعری دنیا میں کن ہستیوں نے متعارف کروایا؟
پروین شاکر:محترمہ عرفانہ عزیز کے بعد دوسرا نام احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ یہی دو ہستیاں ہیں جن کے ذریعے شعری دنیا میں متعارف ہوئی۔ ان کے ہی دم سے میں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔
روشنی: آپ کا پہلا شعری مجموعہ کون سا ہے اور کب شائع ہوا؟
پروین شاکر:پہلا شعری مجموعہ خوشبو ہے جو1976 ء میں شائع ہوا۔
روشنی: خوشبوکا انتساب کس کے نام لکھا؟
پروین شاکر:احمد ندیم قاسمی کے نام۔
روشنی: جب آپ کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو شائع ہوا تو اسے بے حد پذیرائی ملی، اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟
پروین شاکر:میری عمر تقریباً 25 سال تھی۔ عوام الناس نے خوشبو کو بے حد پسند کیا۔ احمد ندیم قاسمی، علی سردار جعفری اور احمد فراز جیسے بڑے شعراء نے بھی داد سے نوازا۔
روشنی: دوسرا شعری مجموعہ کون سا ہے اور کب منظر عام پر آیا؟
پروین شاکر:دوسرا شعری مجموعہ صد برگ ہے جو 1980 ء میں منظر عام پر آیا۔
روشنی:صد برگ کا انتساب کس کے نام ہے؟
پروین شاکر:میری والدہ افضل النساءکے نام ہے۔
روشنی: آپ کا شعری مجموعہ انکار کب شائع ہوا؟ اور کتاب کا نام انکار رکھنے کی کیا خاص وجہ ہے؟
پروین شاکر:انکار میری چوتھی کتاب ہے جو 1990ء کے اوائل میں چھپ کر سامنے آئی۔ اس کا انتساب میری مہربان دوست پروین قادر آغا کے نام ہے۔ اس کتاب کا نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ہار ماننے سے انکار کرنا چاہیے۔ حالات کی غلامی نہیں کرنی چاہیے۔ حالات کو بے چوں چرا تسلیم نہ کیا جائے۔
روشنی: اگر آپ شاعرہ نہ ہوتیں تو کیا ہوتیں؟
پروین شاکر:میرا خیال ہے کہ شاعری ہی میرا کیریئر ہے، اور جہاں تک مادی اعتبار سے کسی بہتر کیرئیر کے انتخاب کی بات ہے تو اتنا ہی جانتی ہوں کہ اگر میں ڈاکٹر یا سائنس دان بن جاتی تو اس طرح خود کو شعر کے لیے وقف نہیں کر سکتی تھی۔سو میرے لیے یہ اچھا ہوا کہ میں شاعرہ ہوں۔
روشنی: ادبی ذوق کے متعلق آپ کیا رائے رکھتی ہیں؟
پروین شاکر:ادب کے متعلق میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کا کسی سند یا ڈگری سے کوئی تعلق نہیں۔تعلیمی ادارے،یونیورسٹیاں صرف رہنمائی کے لیے ہوتی ہیں۔ فطری ذوق کا ہونا خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔
روشنی: کسی شاعر کی شاعری پر تنقید کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتی ہیں؟
پروین شاکر:ہر شخص کا زندگی اور شاعری کو دیکھنے اور سمجھنے کا اپنا ایک الگ زاویہ ہوتا ہے اور ایک شاعر کو اتنا عالی ظرف بہرحال ہونا چاہیے کہ اپنے فن پر کی جانے والی تنقید پورے حوصلے سے سنے اور سوچے کہ کیا واقعی یہ خامی مجھ میں ہے۔ تنقید میں جب خلوص شامل ہو جائے تو ایک شاعر کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔
روشنی: شاعری کی کس صنف کو محبوب گردانتی ہیں؟
پروین شاکر:ہر صنف اچھی لگتی ہے لیکن غزل کی دلآویزی اپنی جگہ ہے۔
روشنی: کب اور کس ادارے میں معلم کی حیثیت سے نوکری کی؟
پروین شاکر: 1973 ء میں عبداللہ کالج میں بطور انگریزی معلم کی حیثیت سے نوکری کی۔ اس کے بعد سول سروسز (سی ایس ایس) کا امتحان پاس کر کے اسلام آباد میں محکمہ کسٹم سے وابستہ ہو گئی۔
روشنی: سنا ہے کہ آپ کو انگریزی کے علاوہ فارسی اور عربی پر بھی عبور حاصل ہے؟
پروین شاکر:آپ کو یہ سن کر بڑی مایوسی ہو گی کہ میں نے فارسی تقریباً نہیں پڑھی۔ میرے نانانے کلکتہ یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا تھا۔ سو وہ جب تک جیتے رہے مجھے فارسی پڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ حافظ سعدی، عرفی و نظیری جس حد تک انھیں زبانی یاد تھے، پڑھا دیا۔ اور کسی حد تک عربی سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
روشنی: شاعری کے علاوہ کس صنف میں لکھنا پسند کرتی ہیں؟
پروین شاکر:میری وجہ شہرت اگرچہ میری شاعری ہے، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نثر کے میدان کی شہسوار تھی۔ میں نے کئی ڈرامے،افسانے اور مقالے تحریر کیے۔
روشنی: کس جریدے میں آپ مسلسل کالم لکھتی رہیں؟
پروین شاکر:روزنامہ جنگ میں طلبہ کے تعلیمی صفحے پر فریاد کچھ تو ہوکے عنوان سے کالم لکھتی رہی۔ اس کے علاوہ گوشۂ چشم کے عنوان سے بھی کالم نگاری کی۔
روشنی: شعر و شاعری کے علاوہ آپ نے کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں۔ وہ کون سی کتاب ہے جس سے آپ متاثر ہوئیں اور ترجمہ کرنے کا خیال آیا؟
پروین شاکر:بمبئی میں رہنے والی گیتا نجلی محض سولہ سال کی عمر میں ہی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پا گئی۔ اس بیماری کے دوران زندگی اور موت کی کشمکش میں گیتا نجلی نے انگریزی میں دو سو سے زائد نظمیں لکھیں۔ اس بچی نے نظم و نثر کی صورت میں موت کے قدموں کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر جذبات کا اظہار کیا۔ بستر مرگ پر لکھی ہوئی اس کی شاعری میں اتنا درد چھپا ہوا تھا کہ میری حساس طبیعت کو وہ شاعری بہت پسند آئی۔ میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ اتنی کم عمری میں زندگی کی اتنی تڑپ کبھی نہیں دیکھی۔ گیتا نجلی کی شاعری قلب و ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ میں نے اس کی نظموں کا ترجمہ کیا۔ جب یہ کتاب ’گیتانجلی البم‘کے نام سے چھپ کر آئی تو اس وقت وہ موت سے ہم آغوش ہو چکی تھی۔
روشنی: آپ کے نزدیک زندگی کیا ہے؟
پروین شاکر:میرے نزدیک زندگی آرام طلبی اور عیش پرستی کا نام نہیں ہے۔ زندگی ایک طرح کی مہم جوئی ہے۔ ہمیں کسی بھی مقام یا منزل پر رکنا نہیں چاہیے بلکہ اقبال کی فکر کی طرح نئی نئی دنیاؤں کی تلاش، نئی منزلوں کی جستجو انسان کا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ مجھے وہ زندگی پسند نہیں ہے، جس میں کوئی ہلچل اور تبدیلی نہ ہو۔
تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں
ایک پل کو چھاؤں میں، اور پھر ہواؤں میں
روشنی: رنگ، خوشبو،موسم، ماحول اور مزاج، کون سی کیفیت تخلیق کے لیے ترغیب دیتی ہے؟
پروین شاکر:ہمارے اندر کا موسم ہی ہماری تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ ہے۔ کچھ منفرد کرنے اور اپنے فن کو ابھارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
روشنی: آپ کی شاعری میں اجتماعی مسائل کی بانسبت ذات کا غم نمایاں ہونے کا سبب کیا ہے؟
پروین شاکر:میری زندگی
روشنی: کوئی ایسا یاد گار واقعہ جو آپ کی تخلیقات سے منسلک ہو اور خوشی کا سبب ہو؟
پروین شاکر:میں اس وقت کسٹم ہاؤس میں تعینات تھی جب مجھے فیصل آباد ڈسٹرکٹ جیل سے ایک انجان شخص کا خط موصول ہوا۔ لکھنے والے نے عرض کی کہ اسے پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے لیکن وہ مرنے سے پہلے میری شعری تصنیف پڑھنا چاہتا ہے۔ میں عموماً انجان لوگوں کے خط کے جواب نہیں دیتی لیکن میں نے اس شخص کو خط کا جواب دیا۔ میں نے لکھا کہ مجھے اس بات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ کس جرم کے تحت جیل میں ہیں،مگر مرنے سے پہلے آپ کی خواہش کی تکمیل کے لیے میں کتاب بھیج رہی ہوں۔ اور یقینی طور پر کتاب اس تک پہنچ گئی۔ مجھے اس کی بے حد خوشی محسوس ہوئی کہ میں اس قابل تھی کہ دنیا سے جانے سے پہلے میں نے اس کی تمنا پوری کی۔
روشنی: کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے؟
پروین شاکر:کامیابی و کامرانی کے لیے صلاحیت، محنت اور رہنمائی……تینوں چیزیں ضروری ہیں۔
روشنی: انٹرویو کے اختتام پرآپ کچھ بھی کہنا پسند کریں تو ہمیں خوشی ہوگی۔
پروین شاکر: تعلیم کو عام کریں۔ اب یہ ہماری ترقی کا نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ ہے۔