اشتیاق احمد
چچ….چچ…چیونٹی….! عامر نے خوف زدہ اندازمیں کہا۔
چیونٹی…! کہاں ہے چیونٹی…!اورپھرایک چیونٹی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟
فیاض نے حیران ہوکرکہا۔
مم…میں نے ابھی اسے اس دروازے سے نکلتے دیکھاہے
عامرنے ڈرے ڈرے اندازمیں کہا۔
یہ کون سی عجیب بات ہوگئی! اگر وہ دروازے میں سے نکل آئی ہے۔
بھئی! سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ دروازے میں سے سوراخ کر کے نکلی ہے۔ ابھی ابھی میں نے اسے دروازے میں سے نکلتے ہوئے دیکھاہے۔
بھئی….! سوراخ اس دروازے میں پہلے سے ہوگا۔ تم نہیں جانتے اندر ہی اندر یہ چیونٹیاں کہاں کی کہاں پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ فیاض نے بُراسامنہ بناتے ہوئے کہا۔
ادھرآؤ… میں تمہیں دکھاتاہوں۔
عامرنے غصے میں آکرکہا اورفیاض کوبازوسے پکڑ کر دروازے تک لے گیا۔
اب دیکھو…یہ سوراخ نیاہے یاپُرانا… یہ دیکھو! لکڑے کے ذرات جو دروازے میں سوراخ بننے سے گرے ہیں۔
اوہ! لیکن ایک چیونٹی بھلادروازے میں سوراخ کس طرح کر سکتی ہے؟ ارے…
وہ… وہ کہاں گئی؟
حیرت ہے…! ابھی تویہیں تھی۔
دونوں نے کمرے میں چاروں طرف چیونٹی کو تلاش کیا، لیکن وہ انھیں کہیں بھی نظرنہ آئی۔
کہیں تمھیں وہم تونہیں تھا؟فیاض نے کہا۔
نہیں! میں نے خود اس چیونٹی کو اس سوراخ میں سے نکلتے دیکھا ہے اور سوراخ بھی میری نظروں کے سامنے بناہے۔
ہوں! پھر چیونٹی کہاں گئی؟ اس کے پَرتونہیں لگ گئے! فیاض بولا۔
چھوڑو ہمیں کیا… آؤناشتے کی میزپرچلیں۔ امی جان ناراض ہو رہی ہوں گی۔
دونوں بھائی تھے اورسیٹھ شوکت شاری کے بیٹے تھے۔ شوکت شاری شہرکے سب سے بڑے رئیس تھے۔ ان کی دولت مندی کی بہت دھوم تھی۔ بڑے بڑے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔ ان کے شہرمیں کئی بڑے بڑے کارخانے تھے۔ جن میں کپڑا بنتا تھا اور ان کے مقابلے کا کپڑا پورے ملک میں کوئی اور کارخانہ تیار نہیں کرتا تھا۔ اس لحاظ سے ان کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ دونوں بھائی ناشتے کی میزپرپہنچے، توان کی امی نے انھیں گھور کر دیکھا
آٹھ بج کر دومنٹ ہوچکے ہیں،جبکہ تمھیں ناشتے کی میزپرٹھیک آٹھ بجے پہنچنا ہوتا ہے۔ دومنٹ کی دیرکیوں ہوئی؟
جج…جی…امی جان…چیونٹی
میں چیونٹی….؟یہ کیابکواس کی تم نے! انھوں نے چیخ کرکہا۔
کیابات ہے بیگم!کیوں چیخ رہی ہو… کیاکر دیاہے انھوں نے؟
یہ پورے دومنٹ دیرسے ناشتے کی میزپرپہنچے ہیں اوراوپرسے مجھے چیونٹی بھی کہہ رہے ہیں!انھوں نے بھناتے ہوئے اندازمیں کہا۔
ہائیں!… یہ میں کیاسن رہاہوں… عامر… فیاض! تم اتنے بدتمیزکب سے ہوگئے
امّی… جان غلط سمجھی ہیں اباجان! ہم نے انھیں چیونٹی نہیں کہا۔ ہماری کیا مجال… چیونٹی توانھیں آپ بھی نہیں کہہ سکتے۔فیاض نے گھبرا کر کہا۔
ا س میں میرا ذکرکہاں سے نکل آیا؟ انھوں نے آنکھیں نکالیں۔
جی وہ… بس… زبان پھسل گئی۔
یہ غلط کہہ رہے ہیں… عامر نے مجھے چیونٹی کہا ہے۔امی جان نے چلا کر کہا۔
جی نہیں… امی جان! آپ کے سمجھنے میں فرق ہے۔ دراصل ہم نے کمرے میں ایک چیونٹی دیکھی تھی۔
یہ…یہ کیسے ہوسکتاہے؟ ہمارے گھرمیں اورچیونٹی، ہمارے گھرمیں توکسی مکھی، مچھر اور چیونٹی کاداخل ہوناممکن نہیں، شایدتم نہیں جانتے میں نے کس قدر جدید چیزیں گھر میں لگوائی ہیں۔ اُن کی موجودگی میں کوئی چیونٹی، مچھر اور مکھی اندر داخل نہیں ہو سکتی۔
اوہو اچھا… یہ بات توواقعی ہمیں معلوم نہیں تھی اباجان
نالائق ہو تم… جب گھرمیں مکھی، مچھراور چیونٹی وغیرہ کوئی چیزبھی نظرنہیں آتی تو کیا تمھارے ذہن میں یہ سوال کبھی پیدا نہیں ہوا کہ آخرکیوں نہیں آتیں؟
شایدہم نے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
میں نے کہا نا…! تم نالائق ہو…ہائیں…تم نے کیاکہاہمارے گھرمیں تم نے ایک چیونٹی کو دیکھاتھا۔
جی ہاں بالکل… میں نے دیکھی ہے۔عامرنے کہا۔
ناممکن….تم نے ضرورخواب میں چیونٹی کودیکھاہوگا۔
جی نہیں…آپ فیاض سے پوچھ لیں۔
کیوں فیاض؟
چیونٹی کو صرف عامرنے دیکھا تھا اباجان! اس نے خوف زدہ اندازمیں کہا تھا… چچ چیونٹی… اورپھراس نے نئی بات یہ بتائی تھی کہ چیونٹی دروازے میں سوراخ کر کے اندر داخل ہوئی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتاہے…آؤ سوراخ مجھے دکھاؤ
اوہو… آپ بھی اُن کے چکرمیں آگئے۔ پہلے ناشتا کریں۔ بیگم شوکت بولیں۔
نہیں بیگم!ناشتابعدمیں…آج یوں بھی چھٹی کادن ہے، اگر کچھ دیربھی ہوجائے گی تو گزارا ہوجائے گا۔
لیکن عادت توخراب ہوتی ہے نا! کل بھی ناشتالیٹ ہوسکتاہے۔
نہیں ہوگا…تم فکرنہ کرو…بلکہ تم بھی میرے ساتھ آجاؤ۔
مجھے چیونٹی سے کوئی دلچسپی نہیں!انہوں نے منہ بناکرکہا۔
دلچسپی تومجھے بھی نہیں… میں توصرف وہ سوراخ دیکھنے جارہاہوں۔
عجیب بات ہے، وہ چیونٹی کہاں ہے؟
ہم نے بعدمیں اسے تلاش کیا، لیکن! وہ ہمیں کہیں بھی نظرنہیں آئی… ارے… وہ دیکھیے اُس دروازے میں بھی سوراخ۔
عامرنے چلا کر کہا۔
وہ یک دم آگے بڑھے اور ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔
نزدیک پہنچ کر انھوں نے سوراخ کا جائزہ لیا۔
کمال ہے… یہ چیونٹی تو ہمیں چکرائے دے رہی ہے۔ اس دروازے میں سوراخ کا مطلب تو پھریہ ہوا کہ وہ اب دوسری طرف ملے گی۔ آؤ دروازے کے اس طرف دیکھیں۔
وہ صحن میں نکل آئے۔ سوراخ اس طرف بھی موجود تھا۔ انھوں نے سوراخ کی سیدھ میں دیکھا… کوئی چیونٹی نظرنہیں آئی۔
چیونٹی یہاں نہیں ہے۔
میرا خیال ہے… اب ہمیں اس چیونٹی کو پورے گھر میں تلاش کرنا چاہیے۔
عامربولا۔
ہاں! ٹھیک ہے۔ سیٹھ شوکت بولے۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ ایک چیونٹی کے پیچھے پڑ گئے، ناشتا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
بیگم بھی ان کے نزدیک چلی آئیں۔
کوئی بات نہیں بیگم! ناشتاپھر گرم ہوجائے گا، لیکن چیونٹی کو دیکھے بغیر اب میں نہیں رہ سکتا۔
اب انھوں نے پورے گھرمیں چیونٹی کی تلاش شروع کر دی۔ عامر نے تو عدسہ بھی ہاتھ میں لے لیا تھا، اور بار باراس کی مددسے اِدھر اُدھردیکھ رہاتھا۔ ایسے میں ایک بارپھر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی
مم…میں نے اسے دیکھ لیاہے۔
وہ آپ کی الماری میں گئی ہے بہت تیزی سے وہ آپ کی الماری کے دروازے سے ٹکرائی تھی اورپھرمیں نے اس جگہ سوراخ دیکھا۔ چیونٹی نظرنہیں آئی۔ گویا اب وہ آپ کی الماری میں ہے۔
مم….میری الماری میں۔
یہ دیکھیے سوراخ! بلکہ آپ عدسے کی مددسے دیکھیں۔
عامرنے کہا۔سیٹھ شوکت نے عدسہ ہاتھ میں لے لیا اور اس میں سے سوراخ کو دیکھا۔ عدسے میں سوراخ کافی بڑا نظر آیا، لیکن اس میں چیونٹی نہیں تھی۔ انھوں نے گھبراہٹ کے عالم میں دروازے کا تالا کھول کردروازے کا پٹ کھول دیا۔ اس طرف بھی سوراخ نظر آیا۔ اب انھوں نے چیونٹی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔
الماری میں فائلیں ترتیب سے رکھی تھیں۔
ہم نے ایک بات کی طرف توجہ نہیں دی۔
اور وہ کیا؟دونوں ایک ساتھ بولے۔
یہ الماری خاص قسم کے فولادسے تیار کی گئی ہے۔
جج…جی…ہم تواسے لکڑی کی خیال کرتے رہے ہیں۔فیاض بولا۔
نہیں! اس کا رنگ ضرور ایساہے کہ بغور دیکھنے پر بھی یہ لکڑی کی ہی نظر آئے گی، لیکن یہ بات صرف میں جانتا تھا کہ یہ بہت مضبوط فولاد کی بنی ہوئی ہے۔ یہ میں نے خود بنوائی تھی۔ اِن فائلوں کی حفاظت کے لیے۔ یہ فائلیں میرا کاروباری راز ہیں، اگر یہ کسی کاروباری رقیب کے ہاتھ لگ جائیں تو میرا سارا کاروبار تباہ و برباد ہو سکتاہے۔
اوہ! ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
لیکن اباجان! وہ چیونٹی تویہاں کہیں بھی نظرنہیں آرہی۔
وہ کسی فائل میں نہ چھپ گئی ہو… سوال تویہ ہے کہ ا س نے فولادمیں کس طرح سوراخ کر دیا؟ وہ بڑبڑائے۔
میراخیال ہے ہمیں پولیس کو بلا لیناچاہیے۔فیاض نے پریشان ہو کر کہا۔
ایک چیونٹی کے مقابلے میں؟عامر نے حیران ہو کر کہا۔
یہ چیونٹی کوئی عام چیونٹی نہیں ہے۔ اس نے فولاد میں سوراخ کر دیا ہے۔ وہ بھی آن کی آن میں۔
یہ بات عجیب ترین ضرورہے، لیکن ہم ابھی پولیس کو بلانے کی حماقت نہیں کریں گے۔سیٹھ شوکت بولے۔
اُف مالک!… یہ میں کیا دیکھ رہاہوں؟عامرنے لرزتی آوازمیں کہا۔
کیا ہوا؟
یہ دیکھیے، فائلیں ایک طرف سے جلناشروع ہوگئی ہیں۔اس نے ایک فائل کی طرف اشارہ کیا، جس سے آگ کی لپٹ اٹھ رہی تھی۔
ارے باپ رے!….دوڑو…پانی لاؤ۔وہ بھاگ کرپانی کی بالٹی اٹھا لائے۔
لیکن اباجان!اس طرح توفائلیں بالکل ضائع ہوجائیں گی۔عامربولا۔
نہیں پانی سے ان کی لکھائی نہیں مٹے گی۔ مائکروفلمیں ہیں ان میں۔
انھوں نے پانی ان فائلوں پر ڈالنا شروع کیا۔ دوسرا لمحہ اور بھی حیران کر دینے والا تھا… پانی ڈالتے ہی آگ یک دم بھڑک اٹھی، یوں لگاجیسے انھوں نے پانی نہیں تیل ڈالاہو۔
یہ تم بالٹی میں پانی لائے ہویاتیل؟
جی غسل خانے میں تیل کہاں!عامرنے گھبرا کر کہا۔
یامیرے مالک!یہ سب کیاہے…کیا ہو رہا ہے؟
اب پولیس کو بلانے کے بارے میں کیاخیال ہے؟
بلابھی لیں گے توکیا ہو جائے گا۔ دھڑا دھڑجلتی الماری کو جلنے سے تو وہ بچا نہیں سکیں گے۔
یہ….یہ کیسی آگ ہے۔ جو پانی ڈالنے سے اور بھڑک رہی ہے۔
اب گھرکے ملازمین بھی وہاں آگئے تھے۔ اچانک آگ الماری سے نکل کر کمرے میں پھیل گئی۔
ارے…ارے….فائربرگیڈ کو فون کرو بھئی! یہ آگ تو پھیلتی جا رہی ہے۔ اُف
سیٹھ شوکت نے چلا کر کہا۔ بھاگ دوڑشروع ہوگئی۔ کمرے میں لگ جانے والی آگ پر پانی ڈالا گیا، لیکن آگ اور بھڑک اٹھی۔
فائربرگیڈ بھی یہاں آ کر کیا کرے گا؟
سیٹھ شوکت نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ایک ملازم نے فون کیا۔ پھر آگ پورے کمرے میں پھیل گئی۔ انھیں دوڑکر باہر نکلنا پڑا اور پھر وہ سب کوٹھی سے باہر نکل آئے۔
محلے کے لوگ پانی بھر بھر کر لا رہے تھے، آگ پر پھینک رہے تھے لیکن آگ لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ کم ہونے کانام نہیں لے رہی تھی۔
آخر فائربرگیڈ کی گاڑیوں کی گھنٹیاں گونج اٹھیں۔ انھوں نے اپناکام شروع کیا، لیکن آگ ذرابھی کم نہ ہوئی اور پھر صرف چندمنٹ میں پوری کوٹھی سے شعلے اٹھنے لگے۔
سیٹھ شوکت اور ان کے گھر والے بت بنے اس منظرکو دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
اباجان!آپ نے یہ خبرپڑھی؟ فاروق نے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد کہا۔
کون سی خبر؟انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
سیٹھ شوکت شاری کی کوٹھی کی تباہی۔
نہیں تو..کیاہوا…؟بم تونہیں ماراگیا ہے؟
جی نہیں…خبرپڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
وہ خبر پڑھنے لگے… ان کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔ اب تو محمود اور فرزانہ بھی خبر پڑھنے پرمجبورہوگئے۔ خبر پڑھنے کے بعدانھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
کیاخیال ہے؟
ان لوگوں سے مل کرپہلے اس خبرکی تصدیق کرلینی چاہیے۔
تو پھر چلو… ناشتا تو ہم کر ہی چکے ہیں۔ دفتر اور اسکول سے آج یونہی چھٹی ہے۔ ان سے مل آتے ہیں۔
وہ اٹھے ہی تھے کہ بیگم جمشیدباورچی خانے سے نکلیں
صبح صبح کہاں چل دیے؟ آج چھٹی کا دن ہے اورآپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ یہ دن آپ گھرمیں گزاریں گے۔ خان رحمان اور پروفیسرداؤد صاحب کو بھی یہیں بلالیں گے۔
یہ ٹھیک ہے بیگم! لیکن تم ہمیں صرف آدھے گھنٹے کی اجازت تو دے ہی سکتی ہو۔ بس ہم ایک گھرانے سے مل کر ابھی آتے ہیں۔
ایک گھرانے سے مل کر…؟ بیگم جمشیدکے لہجے میں حیرت تھی۔
ہاں! اس گھرانے کا گھر جل گیاہے۔
اوہ اچھا! ان سے ملنا توثواب کا کام ہے۔
ویسے وہ کوئی غریب آدمی نہیں ہیں۔ بہت دولت مند ہیں۔ پورے شہرمیں ان سے بڑا دولت مندکوئی نہیں ہوگا۔
پھربھی گھرجلنے پرافسوس کا اظہار تو کیا جاسکتاہے۔
ہاں بس ہم ابھی آتے ہیں… تم خان رحمان اور پروفیسرداؤد صاحب کو فون کر دو، وہ یہیں آجائیں۔
اچھی بات ہے۔
ان کے نکلتے ہی بیگم جمشیدفو ن کی طرف بڑھیں۔ ایسے میں ان کی نظر ایک چیونٹی پر پڑی۔ چیونٹی فرش پر تھی، اور فرش پر لکیرسی پڑتی جا رہی تھی۔ ان کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔ ان کا فرش خاص قسم کا تھا اور کسی چیونٹی کے چلنے سے اس پر لکیرپڑنے کا کوئی امکان نہیں تھا اوریہی بات ان کے لیے حیرت کی تھی۔ انھوں نے سوچا یہ چیونٹی عام قسم کی نہیں، شاید کسی خاص ملک کی ہے،لہٰذا انھوں نے فوراً باورچی خانے سے چمٹا اٹھایا اور چیونٹی کو مارنے کے لیے لپکیں، لیکن ان کا چمٹے والا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا،کیوں کہ چیونٹی غائب تھی۔
ارے وہ کہاں گئی؟ انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا، چیونٹی کہیں نظر نہیں آئی۔ آخر وہ ناشتے کی میزپر بیٹھ گئیں۔ ایسے میں ان کی نظرحاشیہ لگی ایک خبر پر پڑی۔ یہ حاشیہ پن سے لگایا گیا تھا۔ خاص خبرکے گرداس قسم کا حاشیہ لگاناان کے گھرکے افرادکی خاص عادت تھی۔ وہ خبرپر جھک گئیں۔ ساتھ ساتھ ان کے رونگٹے کھڑے ہوتے چلے گئے۔ جونہی انھوں نے خبر ختم کی وہ اُچھل کر کھڑی ہوگئیں اورچلا اٹھی
نہیں! پھر انہوں نے بلاکی رفتار سے انسپکٹرجمشید کے نمبرڈائل کیے، لیکن اُن کا موبائل بند جارہا تھا۔کچھ سوچ کر اُنھوں نے اکرام کے نمبر ملائے۔
دُوسری طرف سے فوراً اکرام کی آواز سنائی دی
سب انسپکٹر اکرام بات کر رہا ہوں۔
انسپکٹر جمشیدہوٹل شان میں گئے ہیں۔ اکرام فوراً ان سے رابطہ قائم کرو اور ان سے کہو کہ ایک عدد چیونٹی ہمار ے گھرمیں بھی آچکی ہے، اور تم بھی اپنے ماتحتوں کے ساتھ فوراً یہاں آجاؤ۔ فائربریگیڈ والوں کو بھی فون کر دو۔
اُف مالک! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
یہ باتوں کاوقت نہیں ہے اکرام! انہوں نے کہااور ریسیور رکھ دیا۔
اب وہ چیونٹی کی تلاش میں پاگلوں کی طرح گھومنے لگیں۔ ہر طرف اسے تلاش کیا۔ پھر انھیں فائلوں والی الماری کا خیال آیا۔ اس الماری کو کھولتے وقت وہ کانپ کانپ گئیں کہ کہیں سیٹھ شوکت شاری کی الماری کی طرح ان کی الماری میں بھی آگ نہ لگ جائے۔ ان کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ تلاش کرتے کرتے تھک گئیں۔ لیکن چیونٹی کہیں نہ ملی، اور پھر دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ انداز اکرام کا تھا۔ انہوں نے فوراً دروازہ کھول دیا۔
وہ ہوٹل شان نہیں پہنچے۔
کیا مطلب؟
ہوسکتاہے راستے میں کوئی اور معاملہ پیش آگیاہو، آپ کووہ چیونٹی ملی یانہیں؟
ابھی تک نہیں مل سکی۔
ایک طرف ہٹ جائیں۔ ہم تلاش کرتے ہیں۔ آپ نے اسے دیکھا تھا؟
ہاں!بالکل! اس کے چلنے سے فرش پرلکیربن گئی ہے۔وہ رہی لکیر۔
انھوں نے لکیردکھا دی۔ وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر اس نے ماتحتوں کو بھی اندر بلا لیا اوروہ سب ایک ایک چیز کا بغورجائزہ لینے لگے۔ کافی دیرگزرگئی، لیکن نہ تو چیونٹی نظر آئی اور نہ کوئی واقعہ پیش آیا۔ آہستہ آہستہ وہ پرسکون ہوتے چلے گئے۔
میرا خیال ہے فائربرگیڈکی گاڑیوں کو واپس بھیج دیتے ہیں۔
ہاں!ٹھیک ہے۔بیگم جمشیدبولیں۔
اکرام باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت بیگم جمشید کو چیونٹی نظرآگئی۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ چلائیں
اکرام!جلدی آؤ!یہ رہی چیونٹی۔اکرام نے ان کی آواز سن لی۔ وہ دوڑ کر اندر آیا۔ بیگم جمشیدلائبریری کے سامنے کھڑی تھیں اور ان کی نظریں اندر ایک جگہ پرتھیں۔ ان کی آنکھوں سے بے تحاشاخوف جھانک رہا تھا۔ اکرام نے اس سمت میں دیکھا۔ چیونٹی ایک کتاب پر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب ہوگئی اور کتاب میں اس جگہ سوراخ نظر آنے لگا
وہ کتاب میں گھس گئی ہے۔
ہاں میں دیکھ چکا ہوں۔ ہمیں فائربرگیڈ والوں کو اندر بلالیناچاہیے۔ تاکہ اگرآگ بھڑک اٹھے توپائپ اٹھائے پہلے سے موجود ہوں۔
لیکن خبرمیں لکھاہے کہ اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاسکتا تھا۔خیر… ہم کاربن ڈائی آکسائیڈکا انتظام کر لیتے ہیں۔ ایک آدھ آگ بجھانے کا آلہ تو یہاں موجود ہوگا۔
ہاں موجود ہے۔ زینے کے ساتھ۔
اکرام نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا اور وہ آگ بجھانے والا آلہ اٹھا لایا، لیکن الماری میں ابھی تک آگ نہیں لگی تھی۔
آگ نہیں لگی…ا س کا مطلب ہے… یہاں والی چیونٹی کا پروگرام آگ لگانے کا نہیں ہے۔اکرام نے بڑبڑانے کے اندازمیں کہا۔
تب پھروہ کیا کرنا چاہتی ہے؟
پپ پتانہیں!میں کس طرح بتاسکتاہوں؟
وہ….وہ اس کتاب میں گھسی تھی۔بیگم جمشیدبولیں۔
ہاں! اکرام نے کہا اورپھرڈرے ڈرے انداز میں اس کتاب کو اٹھالایا۔
ارے….اتنی ہلکی کتاب
ہلکی کتاب…کیامطلب…اتنی توموٹی ہے
اکرام نے مارے حیرت کے کتاب کوکھول کردیکھااورپھران کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔ کتاب اندرسے بالکل کھوکھلی ہوچکی تھی۔ یوں لگتا تھاجیسے اسے اندرہی اندر دیمک چاٹ گئی ہو۔ جب کہ ابھی چند لمحے پہلے ہی وہ چیونٹی اس کتاب میں داخل ہوئی تھی۔
یہ…یہ توساری کتابیں تباہ کرکے رکھ دے گی۔بیگم جمشیدبولیں۔
ہاں! میں بھی یہی محسوس کررہاہوں۔سب انسپکٹراکرام نے کہا۔
تب پھرکیاکیاجائے؟
ان کتابوں کوالماری سے نکال نکال کراِدھراُدھر رکھناشروع کردیتے ہیں۔
لیکن اس پورے کمرے میں توکتابیں ہی کتابیں ہیں اوراس قدرنایاب کتابیں کہ ان کو جمع کرنے کے لیے نہ جانے کس قدرتکلیف اٹھاناپڑی ہوگی اور کس قدر سرمایہ لگانا پڑا ہوگا۔
ہاں!لیکن ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟
اچھااکرام…کوئی اورکتاب اٹھا ناذرا!بیگم جمشیدنے کہا۔
اکرام نے اس کے ساتھ والی کتاب اٹھائی وہ بھی کھوکھلی تھی۔ اب تو وہ جلدی جلدی کتابیں نکالنے لگا۔ لیکن جس کتا ب کوبھی وہ ہاتھ لگاتاچلاگیا وہی کھوکھلی ملتی چلی گئی۔
اُف مالک!… آخر اس چیونٹی کی رفتار کس قدر ہے۔ یہ تو ان کتابوں کو ضائع کیے دے رہی ہے۔
شکرکریں… ابھی صرف کتابیں ہی ضائع کر رہی ہے۔ سیٹھ شوکت شاری کی تو کوٹھی راکھ کا ڈھیر بن گئی ہے۔ ایک روپے کی چیزبھی نہیں بچائی جاسکی۔
توپھراس کاارادہ اب ایساکرنے کانہیں ہے۔
شایدیہاں کوئی اورپروگرام ہے۔
صرف لائبریری کا تباہ ہو جانا بھی کوئی معمولی حادثہ نہیں ہو گا اکرام…! بیگم جمشید بولیں۔
میں سمجھتاہوں۔اس نے سرہلایا،پھربولا
لیکن ہم کرہی کیاسکتے ہیں؟چیونٹی پرابھی تک ہم وارنہیں کرسکے۔
آخریہ چیونٹی ہے کیابلا؟
یہ بعدکی بات ہے۔ اس پر غور کر لیا جائے گا۔ پہلا کام تویہ ہے کہ اس سے ہم گھر کو کس طرح بچائیں؟
اسی وقت اُن لوگوں کو بھی گھرسے جانا تھا۔ ورنہ اب تک ان کے ساتھ پروفیسر صاحب بھی ہوتے۔ شایدوہ کچھ کر ہی لیتے۔
اللہ پربھروسا رکھیں…ہو گاتو وہی جو اللہ چاہیں گے۔
وہ کتابیں ہٹاتے ہٹاتے تھک گئے۔ لیکن کوئی ایک کتاب بھی درست حالت میں نہ مل سکی۔ ان پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ تھک ہار کر وہ لائبریری سے باہرنکل آئے۔
ہم ان کتابوں میں سے شایدایک کتاب کوبھی محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
انھیں کس قدررنج ہوگااکرام…! کس قدر…!!!بیگم جمشیدبولیں۔
اورچیونٹی ابھی گھرمیں ہے…کم ازکم اسے تلاش کر کے ما رہی ڈالیں۔
اکرام نے جلدی جلدی کہا۔ ایک بار پھر انھوں نے چیونٹی کی تلاش شروع کر دی۔ سادہ لباس والے بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ تیزی سے اِدھراُدھرتلاش کر رہے تھے، لیکن چیونٹی کی ایک جھلک تک دکھائی نہ دی۔ آخر وہ تھک کربیٹھ گئے۔ اب اس کے سوا کیا بھی کیاجاسکتاتھا۔
میراخیال ہے وہ اپناکام کرکے نکل گئی۔
اوراب کسی اورگھرکوتباہ کررہی ہوگی۔
ارے…وہ دیکھیے۔ایک سادہ لباس والاچلایا۔
انھوں نے فوراً اس طرف دیکھا اور حیران رہ گئے۔ چیونٹی سامنے آتش دان پر بیٹھی تھی۔ اکرام فوراً اس کی طرف لپکا۔ اس نے اپنا جوتا اتار لیا اور پوری قوت سے چیونٹی پردے مارا۔ جونہی اس نے جوتا ہٹایا اس کی سٹی گم ہوگئی۔ چیونٹی کابال بھی بیکانہیں ہواتھا۔ وہ جوں کی توں موجودتھی۔ جوتاہٹنے کے بعدوہ پھر چلنے لگی۔ اکرام نے اسے جوتے کے نیچے رکھ کردباؤ ڈال دیا۔ اچانک اس کے منہ سے ایک دلدوزچیخ نکلی۔
٭٭٭٭٭
وہ گھرسے نکل کرسیدھے ہوٹل شان کی طرف روانہ ہوئے۔ خبرمیں درج تھا کہ سیٹھ شوکت شاری کا گھرانا اب ہوٹل شان میں رہائش پذیرہے۔
اب تومجھے بھی اس چیونٹی کودیکھنے کاشوق پیداہوگیاہے۔فرزانہ بڑبرائی۔
ایسامعلوم ہوتاہے، ہم بہت جلداسے دیکھ سکیں گے۔محمودنے کہا۔
اگرایسی دوچارچیونٹیاں اورشہرمیں آگئیں توکیاہوگا؟سوچنے والی بات تویہ ہے۔
ارے ہائیں…یہ…یہ کیا…رو… روکیے اباجان جلدی
فرزانہ کی گھبرائی ہوئی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
انسپکٹرجمشیدنے فوراً کار سڑک کے کنارے کر کے روک لی۔
کیابات ہے…خیرتوہے؟ انھوں نے مڑ کر دیکھا اور حیران رہ گئے۔ فرزانہ کے چہرے پر بَلاکا خوف طاری تھا اور اس کی نظریں اپنے پیروں کے قریب ٹکی ہوئی تھیں۔
انہوں نے فوراً اُدھردیکھا اور دھک سے رہ گئے۔ وہاں ایک عددچیونٹی موجودتھی۔ (باقی آئندہ)