بھیانک دیو اور بہادر لڑکا

فائقہ  امین (ملتان)

ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ کسی ملک پر ایک نیک اور رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا ۔ملکہ بھی بہت نیک اور رحم دل تھی۔ اُن کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی جنت تھا ۔شہزادی جنت کے بال بہت زیادہ لمبے چمک دار اور خوب صورت تھے۔ شہزادی جنت بھی اپنے والدین کی طر ح رحم دل تھی۔ شہزادی کو سیر سپا ٹے اور باغ میں گھومنا بہت زیادہ پسند تھا۔ وہ جانوروں سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی۔ ایک دن وہ باغ میں گھوم رہی تھی کہ اُسے آم کے درخت پر سفیدرنگ کا ایک خوب صورت کبوتر نظر آیا۔ اس نے درخت کے پاس جا کر کبوتر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ جیسے ہی شہزادی نے کبوتر کو پکڑا، کبوتر انسانی آواز میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ شہزادی یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئی۔ شہزادی نے پوچھا: اے پیارے پرندے! تمہیں کیا ہوا ہے۔ کبوتر نے کہا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں، میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ شہزادی نے یہ سنا تو وہ بھی دُکھی ہو گئی اور بولی: اے پیارے پرندے! تم آج سے میرے اچھے دوست ہو، کبوتر خوش ہو گیا اور اُڑ کر شہزادی کے کاندھے پر بیٹھ گیا ۔کبوتر ہر وقت شہزادی کے ساتھ رہتا۔

ایک دن شہزادی کبوتر کو محل میں چھوڑ کر اکیلی با غ میں چلی آئی۔ جیسے ہی وہ باغ میں داخل ہوئی، تیز آندھی چلی اور شہزادی بے ہو ش ہو گئی۔ شہزادی کو جب ہوش آیا تو اس نے خودکو ایک پنجر ے میں قید پایا۔ یہ دیکھ کر وہ زور زور سےرونے  لگی۔ دوسری طرف کافی دیر گزرنے کے بعد  بھی جب شہزادی واپس نہ آئی تو کبوتر شہزادی کی تلاش میں باغ میں چلا آیا لیکن وہاں پر بھی شہزادی جنت موجود نہیں تھی۔ کبوتر یہ دیکھ کر پر یشان ہو گیا اور واپس محل میں جا کر بادشاہ اور ملکہ کو یہ بُری خبر سنائی۔ جب بادشاہ اور ملکہ نے یہ خبر سنی تو بادشاہ نے فو راً اپنے سپاہیوں کو باغ میں شہزادی کو تلاش کرنے کا حکم دیا۔ سپاہی بھی نا اُمید واپس لو ٹ آئے۔ بادشاہ نے ملک میں اعلان کر دیا کہ جو شہزادی جنت کو ڈھونڈ کر لائے گا اُسے بہت بڑے انعام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگ شہزادی کو ڈھونڈنے نکلے مگر کچھ دنوں بعد نا کام واپس لوٹ آئے۔

بادشاہ کے وزیر سلیم کا بیٹا ارحم جو کسی ضروری کام سے ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔جس دن وہ واپس آیا، اُس کے باپ نے اُسے شہزادی کے باغ سے غائب ہونے کا بتایا۔ وزیر  نے اپنے بیٹے  کو کہا کہ  بادشاہ اور ملکہ بہت پر یشان ہیں۔ میرے بیٹے! کیا تم شہزادی جنت کو ڈھونڈ سکتے ہو۔ بادشاہ کے ہم پر بہت سے احسانا ت ہیں، تم ہی بادشاہ سلامت کی پریشا نی دور کر سکتے ہو ۔ ارحم نے اپنے باپ کی بات مان لی۔ اگلے دن دربار لگا ہوا تھا جب ارحم نے درباریو ں کے سامنے بادشاہ سے شہزادی کو ڈھونڈ کر لانے کا وعدہ کیا اور بولا کہ بادشاہ سلامت! مجھے سفر پر آج ہی روانہ ہونا پڑے گا۔ بادشاہ نے اُسے اجازت دے دی۔ کبوتر جو بادشاہ کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا، بولا: بادشاہ سلامت! میں بھی ارحم کے ساتھ شہزادی کو ڈھونڈنے جاؤں گا۔ بادشاہ نے اُسے بھی اجازت دے دی ۔ارحم اور کبوتر سفر پر روانہ ہو گئے۔

ادھر شہزادی کے رونے  اور چیخنے  چلانے سے  ایک بار پھر شدید آند ھی آئی۔شہزا دی نے غور سے دیکھا تو وہاں پر ایک خوف ناک اور بھیانک شکل والا دیو تھا  جس کے بڑ ے بڑے دانت تھے ۔ وہ شہزادی کے پاس آ کر رک گیا اور بو لا: اے شہزادی! چلاؤ مت یہاں پر کوئی بھی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا ۔ میری بات غور سےسنو۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے جو مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے مگر اسے کسی ظالم جادوگر نے قید کر رکھا ہے ۔ وہ اُسے اُس وقت تک نہ چھوڑے گا جب تک اُسے میں تمہا رے خوب صورت بال اور خو ن نہ دوں گا ۔ چاند کی چودھویں  رات تمہیں مار دیا جا ئے گا اور تمہا رے بال بھی کا ٹ لیے جا ئیں گے۔ شہزادی یہ سُن کر رونے لگی اور بولی: خدا کے لیے مجھے معاف کر دو، میرا باپ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے، وہ میرے بغیر مر جائے گا۔ بھیانک دیو یہ سُن کر بولا کہ میں بھی اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتا ہوں، اُس کے بغیر میں بھی مر جاؤں گا، اب میں چلتا ہوں، چاند کی چودھویں رات کو ہی واپس آؤں گا۔

ارحم اور کبوتر جنگل سے گزر رہے تھےکہ اُنہیں جنگل میں ایک زخمی شیر نظر آیا جو درد سے کراہ رہا تھا۔انہو ں نے زخمی  شیر کو پا نی پلایا اور اُس کی مر ہم پٹی کر دی ۔ شیر کو کچھ سکون ہوا ۔ اس کے بعد ارحم اور کبوتر نے اپنے سفر کا دوبا رہ آغاز کیا ۔انہیں جنگل میں ہی رات ہو گئی ۔ وہ کسی پناہ کی تلاش میں تھے کہ ان کو جنگل سے کچھ فا صلے پر ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ اس کی طرف چل پڑے۔ جیسے ہی وہ جھونپڑ ی کے پاس گئے اور اندر جھا نک کر دیکھا تو انہیں وہاں پر ایک خوب صورت پری بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ وہ اجازت لے کر اندر داخل ہو گئے۔یہ دیکھ کر وہ حیرا ن رہ گئےکہ جو شیر زخمی حالت میں انہیں جنگل میں ملا تھا، وہ بھی وہی بیٹھا ہوا تھا ۔ شیر پری کو اُن کے بارے میں پہلے ہی بتا چُکا تھا۔شیرنے پری کو بتایا کہ یہی وہ بہادر لڑکا ہےجس نے مجھ سے ڈرنے کی بجائے میری مدد کی۔ پری یہ سُن کر مسکرا دی، پھر ارحم سے بولی کہ تم نے میر ے دوست کی جان بچائی ہے، تم کہاں جا  رہے ہو اور میں تمہاری  کیا  مدد کر  سکتی  ہوں؟ ارحم نے اُسے شہزادی جنت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ۔ پری نے جب یہ سنا تو کہا کہ میں اس معاملے میں تمہاری مدد کر سکتی ہو ں ۔میں اسے  جانتی ہوں  جس نے  شہزادی کو باغ سے اغوا کیا تھا ۔ ارحم اور کبوتر دونوں بے چینی سے بولے: اے اچھی پری! ہمیں اس بارے میں جلدی سے بتاؤ تاکہ ہم اپنے بادشاہ سے کیا گیا وعدہ پورا کر سکیں ۔

پری بولی: میری بات غور سے سنو۔ یہاں سے کافی دور ایک میدانی علاقہ ہے جس میں بھیانک دیو کی اجازت کے بغیر کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا ۔ وہ بہت خوفنا ک دیو ہے۔ میں تمہا ری مدد ضرور کروں گی۔ یہ کہہ کر پری نے اپنی چھڑی گھمائی تو اس کے ہا تھ میں ایک جادوئی چاقو اور جادوئی ہار آ  گیا۔ پری نے دونو ں چیز یں ارحم کو دیتے ہوئے کہا کہ تم ان کو اپنے ہا تھ میں مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنی آنکھیں بند کر لو، جب میں تمہیں پکاروں، تب تم اپنی آنکھیں کھو ل لینا ۔ ارحم نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر لیں اور اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہوا میں اُڑ رہا ہو ۔تھوڑی دیر بعد ارحم کے کانوں میں پری کی آواز آئی کہ اے بہادر لڑکے! اپنی آنکھیں کھول دو۔ جب ارحم اور کبوتر نے اپنی آنکھیں کھولیں تو انہوں نے  خود کو شہزادی جنت کے پنجر ے کے پاس کھڑ ے پایا ۔ شہزادی جنت اس وقت سو رہی تھی ۔ پری نے انہیں بتایا کہ آج چاند کی چودھو یں رات ہے ۔ بھیا نک دیو یہا ں آنے ہی والا ہے۔اس کے آتے ہی تم نے جادوئی چاقو سے پنجر ے کو کاٹ دینا ہے۔تم پنجرے کو جیسے ہی کاٹو گے، بھیا نک دیو تم پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا ۔ جیسے ہی بھیا نک دیو تم پر حملہ آور ہو تم نے جادوئی ہار پہن کر غا ئب ہو جا نا ہے۔میں اور کبوتر شہزادی کو پنجرے سے نکال کر یہاں سے باہر لے جا ئیں گے۔پنجرے سے کچھ دور ایک درخت ہے جس پر سونے کا ایک پرندہ بیٹھا ہو گا، تم نے جادوئی چاقو سے اس کا سر کاٹ دینا ہے، جیسے  ہی تم  پرندے کا سر کاٹو گے، بھیا نک دیو کے جسم میں آگ لگ جا ئے گی۔کچھ دیر تیز آندھی چلے گی پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ ارحم نے ویسے ہی کیا جیسے اُسے پری نے کہا تھا۔ جیسے ہی اُس نے پنجرے کو کاٹا، بھیا نک دیو نے اُس پر حملہ کر دیا، مگر وہ جا دوئی ہا ر پہن کر غا ئب ہو گیا ۔بھیا نک دیو نے جیسے ہی ارحم کو غا ئب دیکھا تو مارے  غصے کے چیخنے چلا نے لگا۔ اس دوران  پری   اور کبوتر شہزادی کو پنجرے سے نکال  کر  باہر لے گئے۔   ارحم نے اُس درخت کے پا س پہنچ کر جادوئی ہار اُتارا تو بھیا نک دیو کو معلوم ہو گیا کہ جس پر ندے میں اُس کی جان ہے، وہاں کوئی آدم زاد پہنچ چکا ہے۔بھیا نک دیو فوراً اُس درخت کے پا س پہنچا ۔ارحم نے فو راً اُس پرندے کا سر جادوئی چاقو سے کا ٹ دیا ۔پرندے کا سر کٹتے ہی ہر طرف بھیانک دیو کے چیخنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور تیز آند ھی چلنے لگی۔کچھ دیر بعد سب کچھ ٹھیک ہو گیا ۔

ارحم نے دیکھا کہ نیک دل پری ،شہزادی جنت اور کبوتر اُس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ اُن کی طر ف چل پڑا ۔اُس نے وہاں پہنچ کر پری کا شکر یہ ادا کیا۔ کبوتر پھر سے اپنی دوست کو پا کر بہت خو ش تھا ۔پر ی بو لی: کچھ دیر میں رات ہو نے والی ہے، لہذا تم لوگ آج رات میرے مہمان بن جاؤ، صبح ہو تے ہی تم لوگ اپنے سفر پر روانہ ہو جانا۔ انہوں نے پری کی بات مان لی اور رات اس کے پاس گزاری۔ صبح ہوتے ہی انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جب وہ محل پہنچے تو بادشاہ اور ملکہ شہزادی جنت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس خوشی میں پورے ملک میں جشن منایا گیا۔ بادشاہ نے ارحم کے ساتھ شہزادی جنت کی شادی کر دی۔ سب ہنسی خو شی زندگی بسر کر نے لگے۔ پیارے  بچو! اس  کہانی سے ہمیں یہ  اخلا قی سبق حاصل ہوتا  ہے کہ ہمیں ہمیشہ مشکل وقت میں دوسر و ں کی مدد کر نی چا ہیے۔

شیئر کریں
2337
20