قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد بابر اعظم سے آدھی ملاقات
انتھک محنت، دل چسپی، بے مثال حوصلہ اور آہنی عزم جیسے یہ تمام اجزا مل کر کسی کھلاڑی کو بامِ عروج پر پہنچاتے ہیں۔ عالمی کرکٹ کے بہترین بلے باز کی فہرست میں شمار ہونے والے محمد بابر اعظم نے کرکٹ کے تینوں فارمیٹس (ٹیسٹ میچ، ایک روزہ میچ اور ٹی ٹوینٹی) میں عمدہ بیٹنگ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔ محمد بابر اعظم سخت محنت، عزم و ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی حالیہ کارکردگی کے سبب خود کودنیا بھر کے شائقین کرکٹ سے منوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کھیل کے آداب سے واقف، میدان کے اندر اور باہر بہترین رویے کا حامل یہ کھلاڑی کھیل کے بارے میں غور و خوض کرنے اور اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرنے والا بلے باز ہے۔ اسٹروکس کے خزانے سے مالا مال یہ کھلاڑی بلا جھجھک باؤلرز کی گیندوں کو باؤنڈری کا راستہ دکھاتا ہے۔ بابر اعظم ایک محب وطن اور کھیل سے جنون کی حد تک محبت کرنے والا کھلاڑی ہے۔بابر اعظم نے اپنا پہلا ایک روزہ بین الاقوامی میچ 31 مئی 2015ء کو زمبابوے کے خلاف قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلااورپہلا بین الاقوامی ٹی ٹوینٹی میچ 7ستمبر 2016ء کو برطانوی سر زمین پر اولڈ ٹریفرڈ کے مقام پر انگلینڈ کے خلاف کھیلا جبکہ پہلا ٹیسٹ میچ 13اکتوبر 2016ء کو دبئی بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا تھا۔ بابر اعظم نے اب تک 40 ٹیسٹ میچوں میں 6 سنچریوں اور 21 نصف سنچریوں کی مدد سے 2851 رنز بنائے ہیں،ان کا بیسٹ اسکور 196 ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے اپنی آف بریک باؤلنگ سے 2 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ 86 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 16 سنچریوں اور 18 نصف سنچریوں کی مدد سے 4261 رنز بنا رکھے ہیں اور ان کا بہترین اسکور 158 ہے۔ 74 ٹی ٹوینٹی میچز میں 26 نصف سنچریوں کی مدد سے 2686 رنز بنائے ہیں۔ بابر اعظم آئی سی سی کی ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی رینکنگ میں بھی نمبر ون پوزیشن حاصل کر چکے ہیں۔ آدھی ملاقات کے سلسلے کا یہ انٹرویو بابر اعظم کے مختلف نیوز چینلوں اور اخبارات کو دیے گئے انٹرویوزسے اخذ کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
روشنی:مکمل نام؟
بابراعظم: محمد بابر اعظم۔
روشنی:آپ کے دوست آپ کو پیار سے کس نام سے بلاتے ہیں؟
بابراعظم:(مسکراتے ہوئے) بوبی کے نام سے۔
روشنی:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
بابراعظم:15 اکتوبر 1994ء کو لاہور میں۔
روشنی:آبائی گھر؟
بابراعظم: لاہور۔
روشنی:کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟
بابراعظم: کمبوہ۔
روشنی:والد اور والدہ کا نام؟
بابراعظم: والد کا نام اعظم صدیق جبکہ والدہ کا نام فرزانہ اعظم ہے۔
روشنی:آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور ان کے نام؟
بابراعظم: ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ بڑے بھائی کا نام فیصل اعظم جبکہ مجھ سے چھوٹے بھائی کا نام سفیر اعظم ہے۔ بہن کا نام فاریہ اعظم ہے۔
روشنی:سکول کا نام؟
بابراعظم: دی لارڈز انٹرنیشنل سکول سسٹم۔
روشنی: تعلیمی قابلیت؟
بابراعظم: پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے گریجویشن کیا ہے۔
روشنی: گھر میں کس کے لاڈلے ہیں؟
بابراعظم: سب ہی کا لاڈلا ہوں۔
روشنی:بچپن میں کبھی ڈانٹ پڑی؟
بابراعظم: (مسکراتے ہوئے) جی بالکل! والد صاحب سے۔
روشنی:آپ کا بچپن کیسا گزرا؟
بابراعظم: میرے بچپن کے دن بہت یاد گار تھے۔ بچپن میں کافی شرارتی تھا۔ محلے کے دیگر بچوں کے ہمراہ شام کے وقت لوگوں کے گھروں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ جایا کرتا تھا۔ گھروں کے باہر لگے ہوئے بلب اور ٹیوب لائٹس پتھر سے توڑ کر بھاگ جاتا تھا۔ بچپن میں پتنگ بازی کا جنون تھا۔ میں پانچ سال کا تھا کہ میرے دادا محمد صدیق نے مجھے کہا کہ بیٹا پیسے لینے ہیں یا پتنگ؟ تو میں نے کہا تھا کہ مجھے پیسے نہیں بلکہ پتنگ چاہیے۔
روشنی:فطرتاً مزاج کیسا ہے؟
بابراعظم: دوستوں کے ساتھ چنچل مزاج ہے۔ فطرتاً خاموش طبع ہوں۔
روشنی:آپ کی سب سے اچھی عادت؟
بابراعظم: مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ خود پر اور اپنے کام پر یقین رکھتا ہوں۔
روشنی:پسندیدہ پکوان اور مشروبات؟
بابراعظم: پکوان میں پلاؤ،بریانی اور باربی کیو جبکہ مشروبات میں کولڈ کافی، فروٹ جوس اور آئس کریم پسند ہے۔
روشنی:امی کے ہاتھ کا بنا ہوا پسندیدہ کھانا؟
بابراعظم: ویسے تو سبھی کھانے وہ بہت عمدہ اور لذیذ بناتی ہیں، لیکن ساگ بہت پسند ہے۔
روشنی:پسندیدہ رنگ؟
بابراعظم: سیاہ رنگ۔
روشنی:آپ کا پسندیدہ بلے باز؟
بابراعظم: اے بی ڈی ویلیئرز۔ میں نے انھیں ہمیشہ فالو کیا ہے۔
روشنی:پسندیدہ باؤلرز؟
بابراعظم: وقار یونس، عمران خان اور وسیم اکرم۔
روشنی:پسندیدہ کرکٹرز؟
بابراعظم: شاہد آفریدی، وسیم اکرم اور مصباح الحق۔
روشنی:پسندیدہ کرکٹ گراؤنڈ کون سا ہے؟
بابراعظم:کراچی، ملتان اور راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم۔
روشنی:کرکٹ کے میدان میں پسندیدہ تبصرہ نگار؟
بابراعظم:شین وارن، شعیب اختر اور محمد اکرم۔
روشنی:پسندیدہ شاٹس؟
بابراعظم:فلک شاٹ اور کور ڈرائیو۔
روشنی:کرکٹ کی طرف کیسے راغب ہوئے؟
بابراعظم:بچپن ہی سے شوق تھا۔ گلی محلے میں کزن اور دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے۔ میرے کزنز کامران اکمل اور عمر اکمل کی کرکٹ کے میدان میں کامیابیوں نے تحریک پیدا کی اور پھر یہ شوق جنون بن گیا۔
روشنی:آپ کے رہنما کون ہیں؟
بابراعظم: رانا صادق میرے بہترین رہنما ہیں۔ انھوں نے مجھے حقیقی معنوں میں سکھایا کہ بیٹنگ کیا ہوتی ہے۔
روشنی:جب آپ کا کرکٹر بننے کا شوق جنون بن گیا تو یہ سفر آپ کے لیے آسان تھا یا مشکل؟
بابراعظم: آسان تو بالکل بھی نہیں تھا۔ میں اپنے دو کزنز اور دوستوں کے ساتھ لاہور کے ماڈل ٹاؤن پارک میں ٹریننگ کے لیے صبح 10 بجے نکلتا تھا جہاں سے پیدل پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا۔ میں خود پارک میں پریکٹس جال لگاتا تھا اور سخت تربیت کرتا تھا۔
روشنی:کرکٹ کے میدان میں جب آپ نے قدم جمانے کی ٹھان لی تو والدین کا کیا تاثر تھا؟
بابراعظم: میرے والدین نے ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا۔ میرے جنون اور جذبے کو پروان چڑھایا۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے پاس بلا خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے تو میری والدہ نے اپنی پوری بچت میرے ہاتھوں میں تھما دی۔
روشنی:پہلی بار کب بین الاقوامی کرکٹ کے منظر نامے پر نظر آئے؟
بابراعظم: پہلی بار 14 سال کی عمر میں 2008ء میں آئی سی سی انڈر 15 ورلڈ چمپئن شپ میں بین الاقوامی منظر نامے پر نظر آیا۔ میں نے امریکہ انڈر 15 کے خلاف کامیاب اننگز کھیلی۔ 140گیندوں پر 165 رنز بنائے جس میں 15 چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔ میں مذکورہ مقابلے میں اپنی ٹیم کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والا کھلاڑی تھا۔
روشنی:دورۂ بنگلہ دیش کے لیے آپ کا نام پہلی مرتبہ کرکٹ ٹیم میں آیا تو آپ کے کیا احساسات تھے؟
بابراعظم: میں جونیئر کرکٹ اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی شاندار کارکردگی کے بل بوتے پر پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا تھا، اِس لیے بہت زیادہ خوش تھا۔ اس خوشی کے لمحات اور احساسات کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
روشنی:آپ جونیئر کرکٹ سے ابھرنے والے کھلاڑی ہیں اور آپ یہ بات زیادہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ اس طرز کی کرکٹ نوجوانوں کو سنوارنے میں کس حد تک معاون ثابت ہوتی ہے؟
بابراعظم: میرا خیال یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو ابھرنے کے لیے جونیئرکرکٹ کااہم کردار ہے خواہ وہ انڈر 19 کرکٹ ہی کیوں نہ ہو جہاں ہر کھلاڑی کچھ کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ اسی کی بنیاد پر ہی اسے آگے چانس ملتا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ کھلاڑیوں کو جونیئر کرکٹ کے بعد پاکستان قومی کرکٹ کے لیے کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جونیئر کرکٹ کا بہت اہم کردار ہے جس کی وجہ سے کھلاڑی جلد اعلیٰ درجے کی کرکٹ تک جا پہنچتے ہیں۔
روشنی: انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست آپ کے لیے بہت بڑا صدمہ ہو گی کیونکہ آپ بھی اس اعزاز کے حصول کے لیے فتح کے متمنی ہوں گے؟
بابراعظم: اس وقت کے احساسات کا تو میں بتا ہی نہیں سکتا۔ بس میں رویا نہیں تھا۔ جب فائنل میں شکست ہوئی تو اس کے بعد کئی دنوں تک یہ حال تھا کہ جیسے کوئی چیز کھو گئی ہو۔ جب ہم پاکستان واپس آئے اور کراچی ایئر پورٹ اور پھر لاہور ایئر پورٹ پر اترے تو عوام نے ہمارا جو شاندار استقبال کیا وہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ قوم ہارنے کے باوجود ہم سے کتنا پیار کرتی ہے۔ اگر ورلڈ کپ جیت کر آتے تو یقیناً لوگ ہمیں اپنی پلکوں پر بٹھاتے۔ ورلڈ کپ کا فائنل ہارنے پر مجھے یوں لگا جیسے کوئی دیرینہ خواب ٹوٹ گیا ہو۔ میں ان لمحات میں محسوس ہونے والے درد کو شاید کبھی بھلا نہ سکوں گا۔
روشنی:جب آپ کو پاکستان کی ٹی ٹوینٹی اور ون ڈے کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا تو آپ کے کیا احساسات تھے؟
بابراعظم: پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنا میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ یہ میرے لیے ایک چیلنج بھی ہے جس پر پورا اترنے کی میں ہر ممکن کوشش کر وں گا۔ میں اُس وقت کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے مجھے پاکستان کی ٹی ٹوینٹی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا تھا۔ان کے علاوہ میں ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کا بھی بڑا شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے سپورٹ کیا تھا۔ میں موجودہ چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کا بھی بے حد مشکور ہوں کیونکہ بطور کپتان وہ مجھے بھر پور سپورٹ کرتے ہیں۔
روشنی: جب آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا تھا تو اس وقت آپ کے ذہن میں کیا پلان تھا؟
بابراعظم: جب میں کپتان بنا تھا تو اس وقت میرا ایک خواب تھا کہ جب کپتانی چھوڑ کر جاؤں تو دنیا یاد رکھے۔میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ناقابلِ تسخیر ٹیم بنانا چاہتا ہوں۔کپتانی ایک چیلنج ضرور ہے اور یہ اعزاز بھی ہے۔میں ایسے کھلاڑی دے کر جانا چاہتا ہوں کہ وہ سب کے رول ماڈل ہوں۔ ہم سب کھلاڑی ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ایک دوسرے کی کامیابی سے خوش ہوتے ہیں۔سب متحرک رہتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ پاکستان ٹیم کو دنیا فالو کرے، اس کی تعریف کرے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے میرے کاندھوں پر جو ذمے داری ڈالی ہے میں اسے قومی ذمے داری سمجھ کر بڑی ایمان داری کے ساتھ نبھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ یہ تو بس اللہ تعالیٰ کا مجھ ناچیز پر خصوصی فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے اتنی عزت سے نوازا ہے۔
روشنی:آپ کے رول ماڈل کپتان کون ہیں؟
بابراعظم: کپتانی میں عمران خان میرے رول ماڈل ہیں۔ان کے علاوہ مجھے کین ولیم سن کی کپتانی کا انداز بھی بڑا پسند ہے۔ عمران خان نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک فاتح ٹیم بنایا اور کئی میچ ونر کھلاڑی دیے۔ ان کی کپتانی کے انداز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
روشنی:اس وقت آپ کا شمار دنیا کے بہترین نمبر ون بلے باز کے طور پر جانا جاتا ہے۔آپ نے کس طرح خود کو اس روپ میں ڈھالا؟
بابراعظم: میرے ارادے کی پختگی اور میری انتھک محنت، لگن اور جنون نے ہی مجھے اس روپ میں ڈھالا ہے۔ یہ میرا عزم اور شب و روز کی سخت ترین محنت ہی تھی جس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ میں مشکل حالات میں کھیلنا پسند کرتا ہوں۔ مجھے زندگی میں کوئی بھی چیز آسانی کے ساتھ نہیں ملی، چنانچہ سخت محنت اور جدوجہد میری زندگی کا حصہ اور میری عادت بن چکی ہے۔
روشنی:جب کرکٹ ماہرین آپ کا موازنہ ویرات کوہلی، کین ولیم سن، اسٹیو اسمتھ اور لابوشین سے کرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟
بابر اعظم: میرا ویرات کوہلی،کین ولیم سن، اسٹیو اسمتھ یا لابوشین سے نہیں بلکہ خود سے مقابلہ ہے اور خود سے مقابلے کے لیے میں دگنی محنت کرتا ہوں۔ روز کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔ سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور آگے بھی سیکھتا رہوں گا۔ میں اپنی نمبر ون پوزیشن سے لطف اندوز نہیں ہو رہا بلکہ مزید محنت کر رہا ہوں
روشنی:کیا آپ انفرادی کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں؟
بابراعظم: میں انفرادی کارکردگی پر یقین نہیں رکھتا۔ میں نے ہمیشہ ٹیم کی اجتماعی کارکردگی کو اولین ترجیح دی ہے۔ میری یا کسی بھی کھلاڑی کی کسی ایسی سنچری یا ڈبل سنچری کا کیا فائدہ جو ٹیم کو فتح نہ دلا سکے۔ میں اجتماعی کارکردگی پر بہت زیادہ یقین رکھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ کرکٹ انفرادی کھیل ہرگز نہیں ہے۔ جب تمام کھلاڑی مل جل کر کھیلیں گے تو اس کا ٹیم کو فائدہ ضرور ہو گا یعنی وہ فاتح ٹیم میں کھیل رہے ہوں گے۔
روشنی:آپ فیلڈ میں خاموش نظر آتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
بابراعظم: سنجیدگی میرے مزاج کا خاصہ ہے۔ میں کھیل کے بارے میں زیادہ سوچنے کی وجہ سے خاموش نظر آتا ہوں۔ میدان میں ایک ہی وقت میں بہت ساری چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔ بیٹنگ کرتے ہوئے سوچ رہا ہوتا ہوں کہ اننگز کو کیسے آگے بڑھانا ہے؟ میچ میں کس حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہے؟ فتح کا راستہ کس طرح بنانا ہے؟یہ سب میرے مزاج کا حصہ ہے، تاہم اب اسے تھوڑا تبدیل کرنے کی کوشش بھی کررہا ہوں۔
روشنی:کرکٹ کے علاوہ کون سے کھیل پسند کرتے ہیں؟
بابراعظم:صرف کرکٹ ہی پسند ہے، اس کے علاوہ مجھے کوئی اور کھیل اچھا نہیں لگتا، اس لیے اگر مجھے کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کو نہ ملے تو میں بور ہو جاتا ہوں۔ جب تک کرکٹ کھیلتا ہوں خوش رہتا ہوں۔ کرکٹ کے بغیر میں اداس ہو جاتا ہوں۔
روشنی:کھیل میں کیا چیز آپ کو متحرک رکھتی ہے؟
بابراعظم:جذبہ حب الوطنی ہی مجھے متحرک رکھتا ہے۔ میری ہمیشہ سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کارناموں سے کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتا رہوں۔
روشنی:اپنی کمائی سے کون سی خواہش پوری کی؟
بابراعظم: مجھے ایک گاڑی خریدنی تھی، وہ خواہش پوری کی۔
روشنی:ایسا کوئی باؤلر جس کا آپ سامنا نہ کرنا چاہتے ہوں؟
بابراعظم: نہیں۔ ایسا کوئی باؤلر نہیں جس کا میں سامنا نہ کرنا چاہوں۔ تقریباً سب کا سامنا کیاہے۔میں چیلنجز لیتا ہوں۔ جہاں بھی جائیں ہر ٹیم میں اچھے اور بہترین باؤلر موجود ہوتے ہیں تو ہم سب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
روشنی:کرکٹ ٹیم میں قریبی دوست کون ہے؟
بابراعظم:امام الحق۔
روشنی:کن جگہوں پر چھٹیاں گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
بابراعظم:مالدیب، یونان، امریکا۔
روشنی:اب تک کی یاد گار اننگز کون سی ہیں جسے کھیل کر مزہ آیا؟
بابراعظم: 13اکتوبر 2016 ء کو بمقابلہ ویسٹ انڈیز۔
روشنی: کیا آپ سے پہلے بھی خاندان میں کوئی کرکٹ کھیلتا تھا؟
بابراعظم: میرے تایا محمد اکمل صدیق کے تین بیٹے کامران اکمل، عمر اکمل اور عدنان اکمل ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔ان کے علاوہ میرے تایا محمد اکرم کے بیٹے عاقل اکرم بھی فاسٹ باؤلر ہیں اور وہ جنوبی افریقہ کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
روشنی:اگر آپ کرکٹر نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
بابراعظم:اس بارے میں کبھی سوچا نہیں۔ شروع سے ہی کرکٹر بننے کا خواب اور جنون تھا۔ اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے میں نے مسلسل جدو جہد کی، لہذا کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہونے کا خیال ہی نہ آیا۔
روشنی:ایک اچھے بلے باز میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں؟
بابراعظم:میرے نزدیک اچھے بلے باز میں ثابت قدمی، مثبت سوچ، مستقل مزاجی اور ذہنی مضبوطی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ریفلیکسز بھی بے مثال ہونے چاہییں۔ موجودہ دور کی تیز کرکٹ میں وہی کھلاڑی کامیاب ہوتا ہے جو ذہنی طور پر مضبوط ہو کیونکہ ایک ذہنی طور پر پختہ کھلاڑی ہی میدان کے وسط میں جا کر اچھا پرفارم کرے گا۔
روشنی:مستقبل میں کون سی نمایاں کامیابی حاصل کرنا چاہیں گے؟
بابراعظم:تینوں فارمیٹس میں عالمی سطح پر نمبر ون بلے باز بننا ہے۔ اب تو کپتانی کی نئی ذمے داری آ گئی ہے، کوشش ہے کہ ٹیم کو بھی نمبر ون پر لے کر آؤں۔
روشنی:کھیل کے شائقین کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
بابراعظم:بس یہی کہ وہ جیتنے پر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ہار کو بھی برداشت کیا کریں۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ہار اور جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ اگر عوام اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں تو وہ آنے والے مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔