کثیر الجہت شخصیت کے مالک اور مریضوں کے مسیحا حکیم محمد سعید سے آدھی ملاقات

حکیم محمد سعید پاکستان کے مایہ ناز طبیب ، دانش ور، سماجی کارکن اور ماہر تعلیم تھے جنھوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے مذہب اور طب و حکمت پر دوسو سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔ حکیم محمد سعید صدر پاکستان کے طبی مشیر اور صوبہ سندھ کے گورنر کے  عہدے پر بھی فائز  رہے۔ کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی ان کے کام سے دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے بہت بڑی لائبریری ، یونیورسٹی ، کالجز ، اسکول اور دیگر ادارے قائم ہیں۔ حکیم محمد سعید نے ادب کی بہت  خدمت کی، خاص طور پر بچوں کے ادب میں تو کمال ہی کر دیا، وہ بچوں اور بچوں کے  ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ انھوں نے لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کیا۔ 17 اکتوبر 1998ء کو  روزہ کی حالت میں فائرنگ کرکے انھیں شہید کر دیا گیا۔ حکیم محمد سعید کراچی میں مدینتہ الحکمت کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کا یہ انٹرویو مختلف اخبارات و جرائد اور کتاب حیات سعید سے اخذ کیا گیا  ہے۔

٭٭٭٭٭

روشنی: مکمل نام؟

حکیم محمد سعید:حافظ حکیم محمد سعیددہلوی۔

روشنی:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

حکیم محمد سعید: 9جنوری 1920ء کو دہلی میں۔

روشنی: کیا آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق دہلی سے تھا؟

حکیم محمد سعید: نہیں نہیں…میرے آباؤ اجداد چینی ترکستان کے شہر کاشغر میں آباد تھے۔سترہویں صدی کے آغاز میں عازم سفر ہوئے اور منزلیں طے کرتے ہوئے پشاور پہنچے۔وہاں 80 برس قیام رہا، پھرپشاور سے ملتان لگ بھگ 135برس قیام کیا۔سیاسی حالات کے پیشِ نظر 1820ء میں ملتان سے دہلی کا رخ کیا۔میرے دادا رحیم بخش نے8برس پیلی بھیت میں گزارے۔بعد ازاں دوبارہ دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔

روشنی:والد اور والدہ کا نام؟

حکیم محمد سعید:والد کا نام حاجی حافظ حکیم عبدالمجید اور والدہ کا نام رابعہ بیگم ہے۔

 روشنی:والد صاحب کا پیشہ؟

حکیم محمد سعید:پیشے کے لحاظ سے وہ طبیب تھے۔

روشنی:آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور ان کے نام؟

حکیم محمد سعید:ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔دو بہنیں حمیدی بیگم اور محمودی بیگم جبکہ دو بھائی عبدالحمید اور عبدالوحید ہیں۔حافظ عبدالوحید عین جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔

روشنی:شادی کب ہوئی اور بیگم صاحبہ کا نام؟

حکیم محمد سعید:میری شادی 1943ء میں دہلی میں ہوئی۔ ان کا نام نعمت بیگم تھا۔

روشنی:آپ کے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام؟

حکیم محمد سعید:صرف ایک صاحبزادی ہیں۔ اس کا نام سعدیہ راشد ہے۔

روشنی:ابتدائی تعلیم؟

حکیم محمد سعید:میں نے ایک دینی ماحول میں آنکھ کھولی۔ میری تعلیم بھی اسی انداز میں ہوئی۔محترمہ والدہ صاحبہ کا فیصلہ تھا کہ سب سے پہلے تعلیم قرآن حکیم کی ہو گی۔ اول ناظرہ اور پھر حفظ، اس کے بعد دوسری تعلیم۔ ان کے فیصلے کے آگے انکار نا ممکن تھا۔ میں ابھی تین سال کا تھا کہ مجھے مدرسہ میں قرآن مجید پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ مدرسہ کیا تھا ہماری چچی جان کا گھر تھا۔ وہ میری پہلی استانی بنیں۔ وہ بچوں کو مفت قرآن پڑھایا کرتی تھی۔ میں نے پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کر لیا۔ میری والدہ محترمہ سب سے زیادہ خوش تھیں۔ ہمارے زمانے میں تین بڑی تقریبات ہوتی تھیں۔ بسم اللہ کی تقریب یعنی تعلیم قرآن شروع کرنا۔ آمین کی تقریب یعنی ختم قرآن اور تیسری سب سے بڑی تقریب بچے کا پہلا روزہ رکھوانا۔ شادی بیاہ کی تقریبوں سے زیادہ ان پر خرچ آتا تھا۔ میری آمین کی تقریب میں بہت سارے بچے آئے تھے۔ اس موقع پر ایک کتاب پڑھی گئی تھی مجھے یاد نہیں کہ اس کتاب کا کیا نام تھا۔ ایک بچہ شعر پڑھتا، باقی بچے زور و شور سے آمین کہتے تھے۔ آمین کہنے والے سب بچوں کو میری والدہ نے چینی کی پلیٹ میں کھوئے والی مٹھائی دی تھی۔ سبز رومال میں ہر پلیٹ بندھی ہوئی تھی۔ اور ہاں ہر بچے کو ہار بھی پہنایا گیا تھا۔ تب میری والدہ نے اعلان کیا کہ محمد سعید اب قرآنِ پاک حفظ کرے گا۔ جب یہ اعلان سنا تو میرا دم نکل گیا تھا۔قرآن پاک کو حفظ کرنا مجھے مشکل خیال لگتا تھا۔ لیکن الحمد للہ! میں نے نو برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔پھر چودہ سال کی عمر میں طبی تعلیم کے حصول کے لیے باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1939 ء میں طبیہ کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔

روشنی:بچپن کیسا گزرا؟

حکیم محمد سعید:میں بچپن میں بہت ہی زیادہ کھلنڈرا اور شرارتی تھا۔ایک رمضان میں، تراویح کے وقت حوض قاضی پر ایک مسلمان خراٹوں سے سو رہا تھا۔ مجھ سے یہ گستاخی برداشت نہ ہوئی تو میں نے پسی ہوئی لال مرچیں اس کی مونچھوں پر چھڑک دیں جو سانس کے ساتھ آہستہ آہستہ حلق کے اندر سے ہوتی ہوئی ہوائی نالیوں میں پہنچ گئیں۔اس ایذارسانی پر میرے بڑے بھائی نے میری سرزنش کی تھی اور مجھے ایسی شرارتوں سے منع فرمایا جو انسان کے لیے تکلیف کا باعث بنیں۔

روشنی:پہلا روزہ کب رکھا؟

حکیم محمد سعید:یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ اصل میں میری والدہ محترمہ نے میرے پہلے روزے کے لیے بہت اہتمام کیا۔ ابھی مجھ پر روزہ فرض نہیں ہوا تھا کہ اس سے پہلے 1928ء میں پہلا روزہ رکھوایا گیا۔ موسم گرم تھا۔ سحری بڑی زوردار ہوئی۔ بچپن میں، مَیں کم کھاؤ پیو نہیں تھا۔ غسل کرایا گیا، نئے کپڑے پہنائے گئے، گلاب کا ہار گلے میں ڈالا گیا۔ شاندار سحری کے بعد نمازِ فجر کے لیے میرے ماموں بابو فضل الٰہی مجھے مسجد لے گئے۔ سب نے بہت دعائیں دیں۔دن چڑھا، گرمی کی شدت بڑھی،کھیل کود میں کچھ وقت گزرا لیکن پیاس کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ بڑی بہنیں نگرانی کر رہی تھیں۔کسی طرح حلق تر کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ کلی کرنے کے لیے بڑی بہن منہ میں جتنا پانی ڈالتیں، ناپ کر اتنا ہی مانگتیں۔ غرض شام تک کئی حملے کرنے کے باوجود ناکام رہا،چوری چھپے ایک گھونٹ پانی بھی نہ مل سکا۔مہمانوں کا رش بڑھنے لگا۔ہر کوئی کھانے پکانے اور کام کرنے میں مصروف تھا۔چار بجے کے لگ بھگ میں نے ہاتھ پیر چھوڑ دیے۔ میری بہنیں ململ کے دوپٹے بھگو کر مجھ پر اوڑھتی رہیں۔ پنکھا جھلتی رہیں۔ بالآخر شام کے چھ بج ہی گئے۔ مجھے پھر سے نہلایا گیا،نیا جوڑا پہنایا گیا، ہار پہنائے گئے۔تربوز اور خربوزوں کی بہار تھی۔ اس زمانے میں بڑے سے بڑا تربوز پانچ چھ پیسے میں مل جاتا تھا۔ ان دنوں جامع مسجد دہلی اور فتح پوری مسجد میں گولے چھوڑے جاتے،جس سے پورا شہر دہل جاتا۔اُدھرگولے چھٹتے،اِدھر ہر مسجدمیں اذان شروع ہو جاتی۔بچے جمع ہو جاتے اور چلاتے : روزہ دارو! روزہ کھول لو۔  ایک دن میں بھی ان بچوں میں شامل ہو گیا جو اس طرح شور مچاتے بھاگتے تھے۔ مجھے اپنی پہلی افطاری ہمیشہ سے یاد رہی۔

روشنی:سنا ہے آپ کھیل کے بہت رسیا تھے؟

حکیم محمد سعید:جی بالکل! درست سنا آپ نے۔ میں جب تک طبیب نہ بنا، کھیل کود کا رسیا رہا اور شرارتیں بھی جاری رہیں۔ دس سے چودہ برس کی عمر تک فٹ بال، بیڈ منٹن، گلی ڈنڈا جیسے کھیل کھیلتا رہا۔ شطرنج میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ 1975ء میں روس کے ایک میزبان کو ہرا دیا۔ کیرم بورڈ میں آل انڈیا وائی ایم سی اے میچ میں اپنی مہارت کی ایسی دھاک بٹھائی کہ اسٹرائیک کرنے میں ایک داؤ میں سات آٹھ گوٹیں پاٹ کر دیتا تھا۔ موٹر سائیکل کا بھی سوار رہا۔ 1933ء میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا۔ مرغ لڑانے کا بھی شوق رہا۔ کشتی رانی کا بھی رسیا تھا۔ غرض اپنی عمر کے ابتدائی برسوں اور جوان ہونے تک ہر کھیل کھیلا تھا۔

روشنی: فطرتاً طبیعت کیسی ہے؟

حکیم محمد سعید: ہنس مکھ اور نرم مزاج طبیعت ہے۔

روشنی: غصہ آتا ہے؟

حکیم محمد سعید:پہلے غصے پر قابو نہیں تھا، آہستہ آہستہ اس پر بھی قابو لیا ہے۔کسی سے غصہ ہوتا تو بات نہیں کرتا تھا، دوسرا شخص بات کرنا بھی چاہے تو سنتا ہی نہیں تھا۔ جب غصہ اتر جاتا تو پھر وہی توجہ اور نرم خوئی۔ غصہ ہنگامی اور عارضی ہوتا ہے۔

روشنی: آپ کا پسندیدہ رنگ؟

حکیم محمد سعید:مجھے سفید رنگ بہت پسند ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کو سفید رنگ بہت پسند تھا۔

روشنی:پسندیدہ مقام؟

حکیم محمد سعید:اپنا پیارا وطن، پاکستان۔

روشنی:پسندیدہ پکوان اور مشروبات؟

حکیم محمد سعید:جو مل جائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے نوش جان کر لیتا ہوں۔ پالک، قیمہ، پراٹھا، پیاز قیمہ، چنے کی دال اور گوشت۔ ہاں مرغی اور گائے کے گوشت سے رغبت نہیں۔ گائے کا دودھ پسند ہے۔ میں زیادہ مرچ مصالحے والے کھانے پسند نہیں کرتا اس لیے کہ مزاج چڑ چڑا ہو سکتا ہے۔

روشنی:پسندیدہ لباس؟

حکیم محمد سعید:لباس کے معاملے میں ایک زمانے میں خاصابے تکلف تھا۔ پہلے کرتا پاجامہ پہنتا تھا۔ بعد میں باقاعدہ سوٹ بھی پہننا شروع کیا۔ جب پاکستان آیا تو کھادی پہننا شروع کیا۔ 1941ء میں شلوار کوٹ بھی پہنتا رہا۔ 1947ء سے شیروانی لباس کا لازمی حصہ بن گئی۔ اس کے بعد شیروانی نہیں چھوڑی۔ سفید رنگ کی شیروانی مجھے بے حد پسند ہے۔پھر یہ کہ میں چینی ہوں اور چین کے اکثر شہنشاہ دربار میں سفیدلباس زیب تن کرتے ہیں۔ایک بات یہ بھی ہے کہ سفیدلباس کو صاف ستھرا رکھنا مشکل کام ہے اور میں مشکل پسند ہوں۔ میں اپنا لباس خود دھوتا ہوں، سفر میں بھی اور گھر میں بھی۔ یہی لباس میرا مستقل پہناوا ہے اور خاص شناخت بھی بن گیا ہے۔

روشنی:پسندیدہ موسم؟

حکیم محمد سعید:میں سرد و گرم چشیدہ انسان ہوں۔ ہر حال میں اور ہر موسم میں خوش رہنا جانتا ہوں۔ لیکن پھر بھی انسان ہوں اور برف کے میدانوں کو پسند کرتا ہوں۔

روشنی:پسندیدہ کتاب اور مصنف؟

حکیم محمد سعید:بہت سے مصنف ہیں کسی ایک کا نام لینا مشکل ہے۔ شوکت تھانوی کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مضامین سے طالب علمی کے زمانے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ بھی پسندیدہ مصنف رہے۔ملارموزی کی گلابی اردو بھی بہت دلچسپ لگتی تھی۔خواجہ حسن نظامی کی ہر کتاب پڑھی۔ مولانا مودودی سے دریا گنج دہلی میں تعارف ہوا تو ان کی تمام کتابیں بھی مطالعے میں رہیں۔ پطرس کے مضامین بھی پسندیدہ کتاب رہی۔

روشنی:پسندیدہ جریدہ؟

حکیم محمد سعید:بچپن اور لڑکپن میں بچوں کے مشہورِ زمانہ رسائل پھول، غنچہ اورپیام تعلیم جب سے مطالعے میں آئے، میرے محبوب جرائد میں شمار ہو گئے۔اسی زمانے میں معارف، نگار، ساقی، منادی، ریاست اور کارواں بھی مطالعہ میں شامل ہو گئے تھے۔

روشنی:لکھنے کا باقاعدہ آغاز کب سے ہوا؟

حکیم محمد سعید:خواجہ حسن نظامی سے عمر کی تفاوت کے باوجود دوستی رہی۔ بقول ان کے میں تھری ایچ محمد سعید بن چکا ہوں۔ یعنی ایک ایچ سے حافظ، دوسرے ایچ سے حاجی اور تیسرے ایچ سے حکیم۔ انھوں نے اپنے مشہور زمانہ روزنامچے میں تھری ایچ محمد سعید لکھنے کا آغاز کیا۔ خود میں نے خواجہ حسن نظامی کی تقلید کی اور باقاعدہ روزنامچہ لکھنے کا آغاز 1936ء سے کیا۔ اسی دور میں ہی مجھے علم و ادب سے شغف ہوا۔ اور پھر مطالعے کی دلچسپی بڑھتی ہی گئی۔

روشنی:ماشاء اللہ! آپ حافظ اور حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ حاجی بھی ہیں تو پہلی بار کب حج و عمرہ کیا؟

 حکیم محمد سعید:1927ء میں پہلی بار حج کیا جب میں سات برس کا تھا۔الحمدللہ! اب تک گیارہ مرتبہ حج کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ عمرے کی صحیح تعداد مجھے یاد نہیں شاید یہ تعداد ایک سو سے زیادہ ہو گی۔ حج،روزہ،نماز اور قرآن پاک کا حفظ کرنا یہ سارے مراحل میں نے کم سنی کی عمر میں ہی طے کر لیے تھے۔

روشنی:کن زبانوں پر عبور حاصل ہے؟

حکیم محمدسعید:اردو، انگریزی، عربی، فارسی، سندھی، پشتو،  بلوچی اور پنجابی۔

روشنی:حکیم بننے کا خیال کیسے آیا؟

حکیم محمد سعید:اصل میں طب کا پیشہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ میرے دادا، والد اور چچا محنت مزدوری کرتے تھے۔ 1905ء میں دہلی میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ وہ قیامت کے لمحے تھے۔ روزانہ سیکڑوں لوگ طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرنے لگے۔ میری دادی اماں بھی اس وبا کا شکار ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ میرے والد کی زندگی تجربات کا مرقع تھی۔ تب انھوں نے ادویات کے خواص میں دلچسپی لی اور کمال مہارت حاصل کر  کے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔ حکیم محمد اجمل خاں کی طبی، سیاسی، سماجی اور علمی خدمات بہت وسیع اور گراں مایہ ہیں۔ میرے والد محترم نے طب کی کتابوں کا بڑی گہرائی اور گیرائی سے کیا۔ شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا مطالعہ انھوں نے نہ کیا ہو۔ بالآخر انھوں نے ہمدرد کی بنیاد ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ہمدرد کا آغاز 21 مارچ 1922ء کو ہوا۔ اور 22جون 1922ء کو ہمدرد دوا خانہ کے بانی حکیم عبدالمجید اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ بہت کم عرصے میں انھوں نے ہمدرد کا معیار قائم کیا۔ ان کے بعد میری والدہ محترمہ نے پردے میں رہ کر ہمدرد دوا خانہ کو اس طرح چلایا کہ وہ دن بہ دن ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔پھر میرے بڑے بھائی محترم حکیم عبد الحمید نے ہمدرد کے نظام کو سنبھالا اور طبیہ کالج دہلی میں اپنی تعلیم بھی ساتھ ساتھ مکمل کرتے رہے۔ جب میں چودہ برس کا ہوا تو میرے بڑے بھائی محترم حکیم عبد الحمید کی خواہش تھی کہ میں طب کی تعلیم حاصل کروں،طبیب بنوں اور خاندانی روایات کو آگے بڑھاؤں اور ہمدرد میں ان کے ساتھ کام کروں۔ میں نے انھیں آج تک ناں نہیں کیا۔ ان کا حکم بس حرفِ آخر ہوتا ہے۔ میرے عظیم بھائی نے آخر کارمجھے حکیم محمد سعید بنا دیا۔

روشنی:دہلی چھوڑ کر پاکستان کب آنا ہوا؟ کیا سوچ کارِ فرما تھی؟

حکیم محمد سعید:اس وقت ہمدرد کے توسط سے مختلف بڑے بڑے سیاستدانوں سے تعلقات استوار ہو چکے تھے۔ حالانکہ میں سیاسی آدمی تو نہیں تھا لیکن سیاست کو خوب سمجھتا تھا۔ بھارت میں جس قسم کی حکومت قائم ہونے والی تھی، میں اس کا وفا دار نہیں رہ سکتا تھا۔اس کی کئی وجوہات تھیں۔ منافقت میرے مزاج میں نہیں، اس لیے عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ میں پاکستان کے حوصلوں، امنگوں اور صلاحیتوں کو آزمانا ہی نہیں چاہتا تھا بلکہ خدمت بھی کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کو مضبوط و مستحکم اور خوشحال بنانے میں اپنا گراں قدر حصہ ڈالنا چاہتا تھا۔ بالآخر 9 جنوری 1948ء کو دہلی پالم کے ہوائی اڈے پر اپنے بھائی محترم حکیم عبد الحمید کو خدا حافظ کہا اور پاکستان کے شہر کراچی میں رہائش پذیر ہوا۔

روشنی:ہجرت کے بعد کن مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

حکیم محمد سعید:انسان بے شمار صلاحیتوں کا مالک ہو لیکن اس کے پاس وسائل نہ ہوں ہو تو وہ اپنی صلاحیتوں کا بھلا کیسے اور کس طرح اظہار کر سکتا ہے۔ میرے وہ دن بہت ہی سخت کشمکش میں گزرے۔ کوئی وسائل نہیں تھے،کوئی سواری نہیں تھی،  پیدل کراچی گھومنا شروع کر دیا۔ تلاش تھی کہ کوئی ٹھیّا مل جائے تو دواخانہ کھول لوں۔ دوا خانہ جاری کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جوتے کے تلے گھِس گئے، سوراخ بن گئے۔ ایک سکول میں بسلسلہ ملازمت کے لیے گیا۔ ظاہری پوشاک کے باعث ملازمت نہیں ملی۔ بھائی جانتے تھے کہ میں کوئی رقم لے کر نہیں گیا تھا،انھوں نے گرائپ واٹر کی دس ہزار شیشیاں کسی کے ہاتھ کراچی بھجوائیں۔میں نے کرائے پر ایک کمرہ پچاس روپے ماہوارپرلیا۔ 12 روپے ماہانہ کرائے پر فرنیچر خریدا۔ دکان تیار ہو گئی۔ طب کا کام شروع کر دیا۔ حالات بدل رہے تھے، آہستہ آہستہ کام بھی چل نکلا تھا۔ میری شریک حیات نے بھی اس سلسلے میں زیور کے ذریعے مدد کی۔یوں ہمدرد کی فیکٹری ناظم آباد میں قائم کی گئی۔ اس کے بعد نئے نئے منصوبوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری و ساری ہے۔

روشنی:ویسے توآپ کی شخصیت اور زندگی کے متعلق ان گنت افراد بہت کچھ جانتے ہیں۔ کوئی ایسا شخص جنھوں نے آپ کی زندگی کا ہر پہلو دیکھا اور طویل عرصہ تک رفاقت نبھاتے رہے؟

حکیم محمد سعید:آدمی اپنی محبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اور اس محبت میں جنھوں نے طویل عرصہ میرے ساتھ بسر کیا، میرا رفیق رہا، شب و روز دیکھا، وہ جناب مسعود احمد برکاتی صاحب ہیں۔ مسعود احمد برکاتی،صاحبِ طرز ادیب ہیں، بہت وضعدار اور دلکش شخصیت کے مالک۔ میرا اور ان کا تقریبا ً48 برس کا ساتھ ہے۔ وہ خود بھی طبیب ہیں اور ہمدرد میں کئی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

روشنی:اگر آپ طبیب نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟

حکیم محمد سعید:مجھے صحافت کا بے حد شوق تھا، لیکن بڑے بھائی کا حکم تھا ہمدرد دوا خانہ کے لیے کام کروں اور صحافت چھوڑ دوں…تو اگر میں آج طبیب نہ ہوتا تو شاید صحافی ہوتا۔

روشنی:آپ کی نظر میں طب کی تعریف؟

حکیم محمد سعید:طب کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن تعریف یہی ہے کہ اس کے علم و فن کے ذریعے انسان کی صحت کا سامان کیا جائے اور حالت مرض میں شفا کا باب وا کیا جائے، اس سے بہتر طب کی تعریف ممکن نہیں۔

روشنی:درازی عمر کا راز کس عمل میں پوشیدہ ہے؟

حکیم محمد سعید:درازی عمر کا راز اصول حفظِ صحت کے عمل میں پوشیدہ ہے۔ اگر انسان اعتدال کے دائروں میں رہے تو اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ رہتا ہے، مگر ہم اصول صحت سے غافل ہیں اس لیے لازماً پاکستان میں پیمانہء عمر کم ہے۔ شرح اموات کا اضافہ ہماری غفلت ہے۔ اعتدال غذا، صاف پانی، تازہ ہوا،ورزش، جلد سونا اور صبح جلدی اٹھنا اور عبادت کرنا، جو لوگ ان امور کو سامنے رکھتے ہیں ان کو صحت اور سکون کی دولت حاصل رہتی ہے۔

روشنی:آپ دن میں کتنے گھنٹے کام اور آرام کرتے ہیں؟

حکیم محمد سعید:میں رات دس بجے سو جاتا ہوں اور صبح تین بجے بیدار ہوتا ہوں۔چار بجے اپنی میز پر کام کرتا ہوں اور پھر رات تک کرتا ہوں۔ پھر مطالعہ کرتا ہوں اور مطالعہ کرتے کرتے سو جاتا ہوں۔ اکثر دس بج جاتے ہیں اور بعض اوقات گیارہ بھی بج جاتے ہیں۔ویسے مناسب ہے انسان چھ گھنٹے سو لیا کرے۔

روشنی:ماشاء اللہ! آپ نے زندگی میں بہت سفر کیے۔ وہ سیروسیاحت تفریحاً تھی یا مقصدی؟

حکیم محمد سعید:جی میں نے اس تواتر سے مسلسل سفر کیا کہ ان سفارکی تعداد اتنی ہے کہ میں خود بھی انھیں یاد نہیں کر سکتا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، 1933ء کی بات ہے کہ بھائی جان نے زندگی کا پہلا ہوائی سفر کیا تھا دہلی سے الٰہ آباد۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ہوائی سفر بہت کم تھا۔ اسے ایک خطرناک ہوائی سفر سمجھا جاتا تھا۔ میں بھائی جان کو باہر دروازے تک چھوڑنے آیا۔ جب وہ روانہ ہوئے تو میں انھیں حسرت سے دیکھتا رہ گیا کہ میں ان کے ساتھ جہاز میں کیوں نہیں گیا۔ میں نے اس وقت عزم کیا تھا کہ بڑا ہو کر ہوائی جہاز میں بیٹھوں گا۔ اس عزم کو درجہ دعائے مقبول حاصل ہوا۔ اب یہ حال ہے کہ مہینے میں کئی کئی سفر کرتا ہوں۔ لاکھوں میل جاتا ہوں۔ دنیا کا کونا کونا چھان لیا۔ دنیا کو کف دست بنا کر رکھ دیا۔ ہاں میری تمام سیرو سیاحت بامقصد تھی کہ طب اور سائنس کے میدانوں میں مغرب نے کیا پیش رفت کی ہے۔ دواسازی میں کون سے انقلابی کام ہو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر اہل علم و ادب کس انداز سے مصروف کار ہیں۔ یورپ میں عبادت گاہوں کا کیا مقام و درجہ ہے۔

روشنی:1984ء میں آپ نے ایک ناشتا، ایک کھانا کے عنوان سے تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک میں کیا تجاویز پیش کی گئیں؟

حکیم محمد سعید: تجویز یہ پیش کی گئی کہ قلیل غذا تقاضائے وقت ہے۔ اس سے صحت بہتر ہو گی۔ اور پیدوار میں بھی خود کفیل ہونے میں مدد ملے گی۔ گھریلو بجٹ بہتر بنے گا اور بچت بھی ہو سکے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صحت خراب نہیں ہو گی۔ قلیل غذا میں یہ نسخہ پیش کیا گیا کہ ہر پاکستانی کو ایک وقت کا کھانا اوربطور خاص دوپہر کا کھانا ترک کر دینا چاہیے۔ اپنی خوراک کو صرف ایک ناشتے اور رات کے کھانے تک محدود کر لینا چاہیے۔ ایک ناشتا،ایک کھانا کی تجویز اور تحریک کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور ملک میں اس کا مثبت رد عمل ہوا۔

روشنی:آوازِ اخلاق کے عنوان سے بھی تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس کا کیا مقصد تھا؟

حکیم محمد سعید:اس کا مقصد یہ تھا کہ آواز اخلاق کا ہر رکن اخلاق عالیہ سے سرشار ہو اور اپنے بلند اخلاق سے درستی اخلاق کی جدوجہد کرے۔ میں پاکستان کے ہر نونہال کو بلند اخلاق دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر نو نہال وطن تعلیم اور عالم کا احترام کرے۔ ایک دوسرے سے محبت کرے اور نرم آواز  سے بات کرے۔ زمین پر آہستہ چلے اور ہمیشہ سچ بولے۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرے اور پاکستان سے محبت کرے۔ تعمیر پاکستان کے لیے محنت کرے۔وقت کا پابند ہو، وقت کو امانت سمجھ کر اس کا صحیح استعمال کرے۔ وقت ضائع کر کے اس میں خیانت نہ کرے۔

روشنی:حکیم صاحب! آپ صدر پاکستان کے مشیر طب بھی رہے، لیکن بعد میں استعفیٰ دے دیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟

حکیم محمد سعید:جنرل ضیاء الحق کو طب مشرق سے دلچسپی تھی۔انھوں نے مجھے اپنا مشیر بننے کی پیش کش کی۔ میں نے بہت غور کیا۔ میں ذہنی طور پر اس حق میں نہیں تھا میرا ایک مقصد ہے،سوچا اسے آگے بڑھانے میں مدد ملے گی تو وہ پیش کش میں نے قبول کر لی۔ وزیر کا عہدہ پا لینے کے باوجود بھی میں نے مطب ترک نہیں کیا۔ پہلے کی طرح مطب کا کام کرتا رہا۔ اپنی ذات کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ سرکاری سہولت قبول کی۔ لیکن ایک وقت کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں یہاں محض وقت ضائع کر رہا ہوں۔ میرا کوئی مقصد پورا نہیں ہو رہا، میرے لمحات بہت قیمتی ہیں۔ تو میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

روشنی:آپ کی زندگی کا اولین مقصد؟

حکیم محمد سعید: میں نے اپنی زندگی میں طب کو اہم مقام دیا ہے اور تعلیمات اسلامی سے اس شعبہ زندگی کو روشن کرنے میں عملاً کوئی کوتاہی نہیں کی۔ طب اسلامی کا فروغ اور اسے اس کا صحیح مقام دلانا میری زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔

روشنی:بزم ہمدرد نونہال شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟

حکیم محمد سعید:انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے۔ ان کی بھلائی کے لیے دن رات کوشاں رہتا ہے مگر محبت جب اپنی بلندیوں کو چھوتی ہے تو اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ انسان کو ہر بچے سے محبت ہو جاتی ہے۔ ہر بچہ اپنا بچہ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ محبت کی عظمت ہے۔جب تک میں اپنی اولاد سے محبت کرتا رہا مجھے بزم ہمدرد نونہال کا خیال نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں نے پاکستان کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت اور صحت کے لیے ماہانہ رسالہ ہمدرد نونہال 1953ء میں جاری کیا۔ اور یہ آج بھی بڑی ہی محبت سے شائع ہو رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جس طرح بڑوں کی شام ِہمدرد کا آغاز کیا گیا اسی طرح بچوں کی بھی شام ہمدردہونی چاہیے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں بچوں کے لیے ابھی تک کوئی ایسا پلیٹ فارم نہ تھا جس کے ذریعے بچے اپنی بات اعلیٰ حکام تک پہنچا سکتے۔ بس پھر مسعود احمد برکاتی صاحب سے بھی مشورہ ہوا اور یہ طے پایا کہ اخراجات ہمدرد فاؤنڈیشن دے گی۔پھر پورے پاکستان میں جلسے منعقد ہوئے۔ بہت سے اسکولوں نے بزمِ ہمدرد نونہال میں دلچسپی لی۔سیکڑوں اساتذہ کرام نے تعاون کیا اور آج بھی کرتے ہیں۔ جس کام میں محبت اور خلوص شامل ہو، ترقی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔یوں پاکستان میں بزم ہمدرد نونہال کو پہلا نونہال پلیٹ فارم تسلیم کیا جاتا ہے، تعلیمی اور اصلاحی پروگرام کی حیثیت سے بھی مانا جاتا ہے۔ اس بزم کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا نونہال بن گیا ہوں۔

روشنی: ہمدرد طبیہ کالج،کراچی کا آغاز کب ہوا اور اس کا افتتاح کس نے کیا؟

حکیم محمد سعید: ہمدرد طبیہ کالج، کراچی کا قیام 1958ء میں معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست 1958ء کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس کا افتتاح کیا۔

روشنی:مدینۃ الحکمت کے قیام کا خیال کیسے آیا؟

حکیم محمد سعید:1978ء میں مکہ المکرمہ میں عالمی تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں دنیا بھر سے ماہرین تعلیم جمع ہوئے۔مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہم تمام دن کانفرنس میں مصروف رہتے جب کہ میں عشاء کے وقت خانہ کعبہ پہنچ جایا کرتا۔ ساری رات وہاں رہتا، طواف کرتا اور سعی کرتا رہتا تھا۔فجر ادا کر کے ہوٹل واپس آ جاتا۔ ایک رات طواف کر کے مقام ابرہیم پر بیٹھا تھا۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر نو کی تھی۔ میں وہاں بیٹھ کر غور کرتا، سوچتا اور فکر کرتا رہتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، تہجد کے وقت خیال آیا کہ مجھے تعلیم کے میدان میں کچھ کام کرنا چاہیے اور کوئی بڑا کام کرنا چاہیے، اس کے ساتھ ہی مدینۃ الحکمت کا نام ذہن میں آیا۔ وہاں بیٹھ کر ایک منصوبہ تیار کیا جہاں آج نونہالوں کے لیے تعلیم کا مرکز ہمدرد پبلک سکول، نوجوانوں کے لیے کالجز، یونیورسٹی اور اسلام کا ایک بڑا مرکز دارالعلوم سائنس طب اور رحمت اعلیٰ مرکز ہیں۔ بیت الحکمت میں  اس وقت پانچ لاکھ سے زائد مختلف موضوعات پر کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں رسائل و جرائد بھی موجود ہیں۔

روشنی:آپ کے خیال میں تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہونا چاہیے؟

حکیم محمد سعید:تعلیم کا بنیادی مقصد ایک بلند انسان بنانا ہے۔ انسان کو معاشرے کا ایک ہمدرد شخص بنانا ہے۔ اسے زمینوں اور آسمانوں میں موجودات کا کھوج لگانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ تعلیم کا مقصد انسان میں محبت و احترام کے جذباتِ عالیہ پیدا کرنا ہے۔ تعلیم کا مقصد انسان کو تعمیرِ جہاں کے لیے تیار کرنا ہے۔

روشنی:مسلسل کام کرنے کی وجہ سے کبھی ڈپریشن کا شکار ہوئے؟

حکیم محمد سعید:ڈپریشن کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ حالات کے سامنے انسان کندھا ڈال دے۔ حالات کا مقابلہ نہ کر سکے، ہمت ہار جائے، شکست قبول کر لے۔ میرے نزدیک ڈپریشن کے یہی معنی ہیں مگر یہ میرا مزاج نہیں ہے۔ میں سخت حالات کا مقابلہ کرنا جانتا ہوں اور مقابلہ کرتا بھی ہوں۔ اس لیے ڈپریشن نام کی کسی چیز کو میں نہیں مانتا۔

روشنی:جب بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں تو کس طرح اظہار کرتے ہیں؟

حکیم محمد سعید:میں خوش ضرور ہوتا ہوں مگر اس کا اظہار بہت کم قہقہوں میں کرتا ہوں۔ بس ذرا مسکرا لیتا ہوں۔ہاں دل میں فرحت اور تازگی محسوس کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے خوش ہونے کا موقع دیا۔

روشنی:آپ خود ایک آئیڈیل شخصیت ہیں، لیکن آپ کی آئیڈیل شخصیت کون سی ہے؟

حکیم محمد سعید:میری والدہ اور میرے بڑے بھائی محترم حکیم عبدالمجید میری آئیڈیل شخصیت ہیں۔ والدہ کے گزر جانے کے بعد میری پرورش میرے بڑے بھائی نے کی۔ ہم دونوں کی عمر میں 12 سال کا فرق ہے۔ میں ان کے نقش ِقدم پر چلتا ہوں۔ ہم دو بھائیوں میں آج تک اختلاف نہیں ہوا۔ میں نے ہمیشہ بڑے بھائی کے حکم اور ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ کبھی ان کو ناراض نہیں کیا۔ اُنھوں نے میری تربیت اور پرورش کر کے مجھے انسان بنا دیا۔

روشنی:فارغ لمحات میسر ہوں تو کس طرح گزارتے ہیں؟

حکیم محمد سعید:میں اپنے فارغ لمحات میں مطالعہ کرتا ہوں یا خود اپنا کوئی مضمون تیار کر لیتا ہوں۔

روشنی:آپ کی زندگی کا وہ کون سا اصول ہے جسے آپ اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں؟

حکیم محمد سعید:میں اپنے خاص اصول رکھتا ہوں اور ان اصولوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کسی سے انتقام نہیں لیا۔ میں کسی سے نفرت کرنا نہیں جانتا۔ میں محبت کرتا ہوں، احترام کرتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ جو برا کہتے ہیں ان کو اچھا کہتا ہوں۔ جو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کے لیے راحتوں کا سامان کرتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں، وقت ضائع نہیں کرتا اور وقت کا احترام کرتا ہوں۔

روشنی:آپ کے خیال میں، کسی انسان کی کامیابی و ناکامی میں کس چیز کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، تدبیر کا یا تقدیر کا؟

حکیم محمد سعید:میں تدبیر سے تقدیر کو بدل دینے کو اہمیت دیتا ہوں۔ جب انسان تدبیر پر قادر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے کہ تفکر کرو، تدبر کرو تو پھر تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔

روشنی:کہتے ہیں کہ کتاب کا رشتہ دوستی جیسا ہے۔ تو نونہالوں میں کتابی ذوق کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے؟

حکیم محمد سعید:ہاں! کتاب انسان کی بہترین رفیق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ تم کتاب کھولو ترقی کا ہر دروازہ تم پر کھل جائے گا۔ کتاب ایسی رفیق ہے جو صدق و صفا کا درس دیتی ہے۔ انسان کو انسان بناتی ہے۔ سوچ کو وسعت عطا کرتی ہے۔

روشنی:ایک اچھی قوم یا معاشرے کی بہترین صفت کیا ہونی چاہیے؟

حکیم محمد سعید:بہترین معاشرہ وہ ہے جو انسان کا دوست ہو۔جو ہر دم آمادۂ خدمتِ خلق رکھے۔ بہترین معاشرہ وہ ہے جہاں انسان کو انسان سے راحت ملے۔ جہاں وطن سے محبت ہو۔

روشنی:نونہالوں کے نام کوئی پیغام؟

حکیم محمد سعید:میرے عظیم نونہالو! کام کام کام، محنت محنت محنت، محبت محبت محبت فاتحِ عالم۔

شیئر کریں
62
1