صائمہ صفدر (راجن پور)
احمد دین ایک ایمان دار کسان تھا۔ اس اپنی گزر اوقات کے لیے کچھ گائے بھینسیں پال رکھی تھیں۔ احمد دین روزانہ صبح و شام اپنی گائیں بھینسوں کا دودھ دوہنے کے بعد اپنی بیوی رضیہ کو بیچنے کے لیے دے دیتا تھا۔ اس کی بیوی رضیہ ایک لالچی عورت تھی۔ وہ اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں دودھ میں پانی ملا دیتی اور پھر وہی پانی ملا دودھ محلے کی عورتوں کے پاس بیچتی ۔ دودھ میں پانی ملانے سے دودھ بڑھ جاتا اور رضیہ کی آمدنی میں اضافہ ہو جاتا۔ بعض اوقات گاہک عورتیں دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی شکایت کرتیں تو وہ کہتی کہ گائے بھینسوں کو پانی پلاتے ہیں، اس لیے دودھ پتلا ہو جاتا ہے۔ کبھی وہ ان کی شکایت ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی۔ کافی عرصے بعد رضیہ کافی مال دار ہو گئی۔ گائے بھینسوں کی تعداد بھی پہلے سے بڑھ گئی۔ ایک دن گائے بھینسیں ان کے کٹے کٹیاں اور بچھڑے سب بیمار ہو گئے۔ احمد دین سب بیمار مویشیوں کو علاج معالجے کے لیے شہر کے مویشی ہسپتال لے گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد اچانک زوردار طوفانی آندھی چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور بارش شروع ہوگئی۔ مسلسل ہونے والی زوردار بارش سیلاب کی وجہ بن گئی۔ پہاڑوں سے پانی کا ریلا آیا تو رضیہ کا گھر جو کہ نشیبی جگہ پر واقع تھا، اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ منہ زور پانی رضیہ کی بے ایمانی کی ساری جمع پونجی سمیت وہ گائے بھینسیں بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا جو اس نے پانی ملے دودھ کی فروخت سے آنے والی رقم سے خریدی تھیں۔ رضیہ حیران وپریشان ہو کر ہر کسی سے کہتی تھی کہ ایسی بارش اور ایسا سیلاب کبھی دیکھا، نہ سنا تھا۔ اہل محلہ نے جب رضیہ کی یہ باتیں سنی تو کسی نے کہا کہ بہن ! ذرا غور کروتو تم کو معلوم ہو گا کہ تمہارے ایمان داری والے سب مویشی بچ گئے اور ایمان داری والی آمدن آپ نے اپنے گھر پر اور خود پر خرچ کی ۔ لیکن جو آمدن آپ نے دوددھ میں پانی ملا کر دودھ بیچنے سے کمائی تھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہی پانی سیلاب بن کر آیا اور آپ کی بے ایمانی کی تمام جمع پونجی اور بے ایمانی سے خریدی جانے والی تمام گائے بھینسوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔