محمد عکاشہ  (بہاول نگر)

یہ انیسویں صدی کا آغاز تھا۔ سردیوں کی ایک خوب صورت شام تھی۔ ہر طرف خاموشی اورسکون تھا۔اس خاموشی کے حصار کو توڑنے کے لیے ایک نوجوان نے جھیل میں کنکر پھینکا جس سے سکوت کا خاتمہ ہوا۔ پتھر پانی سے ٹکرایا آواز اور لہریں پیدا ہوئیں۔ یہ لہریں اپنے مرکز سے چاروں طرف سفر کرتی چلی گئیں۔ اس نے سوچا کہ ہمارے منہ سے نکلی ہوئی آوازیں بھی تو ایسے ہی سفر کرتی ہوں گی۔ یہ تھا وہ خیال جو اٹلی کے نوجوان  الیکٹریکل انجینئر گگلیلیلمو مارکونی کو سوجھا۔ جو میری ایجاد کا سبب بنا۔ پانی کی لہروں سے ہوا کی لہروں اور آواز کی لہروں کو دور تک پہنچانا۔ سنا ہے مارکونی سے قبل بھی کئی لوگوں نے خاص طور پر جگدیش چندر بوس نے بھی مجھے دنیا میں لانے کے لیے بڑی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ لیکن کامیابی نوجوان مارکونی کامقدر بنی جس نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ مجھے منظر عام پر لا کر دنیا کو حیران کردے گا۔کڑی محنت اور جدوجہد کے بعد بالآخر 1909 میں میری آواز دنیا میں دوردور تک سنی گئی۔ ہر طرف میرا ہی چرچا تھا۔  لوگ میرے موجد کو مبارک باد دے رہے تھے۔ بہت جلد میری تمام دنیا پر حکمرانی ہو ئی ۔ہر کوئی مجھے حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ دنیا کے نامور لوگ چاہے وہ بادشاہ ہوتےیا کسی بھی شعبے سے وابستہ، میرے ذریعے اپنا پیغام اور آوازدنیا تک پہنچاتے ۔دنیا میری خدمات کی معترف تھی۔ ہرگھر میں میرا بسیرا تھا۔ بچوں سے لے کر بزرگوں تک سب کی خواہش، سب کے سب میرے دیوانے ،میری بدولت بہت سے لوگوں نے نام کمایا۔ پیسہ کمایا شہرت پائی۔ میں ہر گھر، ہر گاڑی اور ہر کان تک پہنچا۔ مگر پھروقت بدلا ، حالات بدلے  اورمیں پس منظر میں چلا گیا۔ الیکٹرونکس کے شعبے میں میری معنوی اولاد جوان ہوئی، لہذا مجھ بزرگ کی کون سنتا کیوں کہ لوگ سننے سے زیادہ دیکھنے کے رسیا ہوئے۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر سب مجھ سے منہ موڑ گئےاور مجھے مرنے کے لیے گھر کے کباڑ میں پھینک دیا گیا۔ کل کھیلتے کھیلتے کسی بچے نے مجھے اٹھایا، میرے کان مروڑےاور مجھے کچھ حرکت دی تو بڑی مشکل سے کھانستے ہوئے اپنا یہ دکھ بیان کیا ہے۔

شیئر کریں
407
1