عبداللہ (بہاول نگر)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں کچھ خرگوش رہتے تھے۔ خرگوش  اپنی دنیا میں ہنستے کھیلتے، مزے مزے کے کھانے کھاتے۔ وہ بڑے امن اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک دن اچانک ایک ریچھ کا وہاں سے گزر ہوا۔ اتنے خوبصورت اور موٹے تازے خرگوشوں کو کھیلتے دیکھ کر ریچھ کے منہ سے تو رال ٹپکنے لگی۔ اور اس کی بھوک مزید بڑھ گئی۔ بس پھر کیا تھا، وہ جھاڑیوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا خرگوشوں کے قریب آیا۔ خرگوش ریچھ کی آمد اور اس کے ارادے سے بالکل بے خبر اپنےکھیل میں مشغول تھے کہ اچانک ریچھ نے لپک کر ایک خرگوش کو دبوچ لیا اور چلتا بنا۔ خرگوشوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ مگر وہ کرتے بھی تو کیا؟ رو پیٹ کر بیٹھ گئے۔ دوسری طرف ریچھ کی تو چاندی ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ اب مجھے شکار کے لیے مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہیں بلکہ روز ایک خرگوش کو پکڑوں گا اور خوب مزے اڑاؤں گا۔ اگلے دن ریچھ پھر وہاں جا پہنچا اور انتظار کرنے لگا کہ کب خرگوش کھیل میں مشغول ہوں تو وہ اپنا شکار کرے۔تھوڑی دیر تو خرگوش ڈرتے رہے مگر پھر کھیل میں مشغول ہو گئے۔ ریچھ نے اپنا کام کر دکھایا اور ایک موٹا تازہ خرگوش لے اڑا۔ اب تو خرگوش بہت پریشان ہوئے۔ وہ سوچنے لگے کہ اس عذاب سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟ پھر وہ اپنے ایک بزرگ خرگوش کے پاس جا پہنچے اور ان سے  اپنا دکھ بیان کیا۔ بزرگ خرگوش نے ایک ترکیب بتائی کہ جہاں تم سب کھیلتے ہو، وہاں ایک پرانا کنواں ہے۔ اس کے اوپر تنکے اور گھاس پھونس ڈال کر چھپا دو۔ اور دھیان کرنا جس طرف سے ریچھ تم پر حملہ آور ہو، اس کی مخالف سمت میں کنویں کے گرد کھڑے ہو جانا۔ خرگوشوں نے اپنے بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا اور ریچھ کا انتظار کرنے لگے۔ وہ جھوٹ موٹ ایسا ظاہر کرنے لگے جیسے وہ بے خبری میں کھیل رہے ہوں۔ ریچھ تو روز مزیدار شکار کا عادی ہو چکا تھا۔ ٹہلتا ہوا آیا اور جب ایک خرگوش کو پکڑنے کے لیے چھلانگ لگائی تو اپنے بھاری وزن کی وجہ سے کنویں میں جا گرا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بزرگوں کی نصیحت پر عمل میں ہی عافیت ہے۔

شیئر کریں
98
3