گزشتہ دنوں ایک طالب علم نے ہمارے سلسلے مسئلہ آپ کا حل  ہمارا میں اپنا یہ مسئلہ لکھ کر بھیجا کہ وہ ایف اے میں داخلہ لینا چاہتا ہے، اُس کے والدین مجبور کر رہے ہیں کہ وہ سائنسی مضامین کا انتخاب کرے، لیکن اس کے دل و دماغ سائنس پڑھنے کے لیے مطمئن نہیں۔

دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں کی تعلیم کے ضمن میں ہر مرحلے پر بچوں کے ذہنی رجحانات کو اولین اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرہ تعلیم  کے ضمن میں بچوں کے ذہنی رجحانات کو نظرانداز کرنے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو طلباء و طالبات اپنے والدین کے کہنے پر اپنے ذہنی رجحانات سے  مطابقت نہ رکھنے والے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں، وہ کبھی بھی ان مضامین میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ اگر وہ سخت محنت کر کے اس مضمون میں اچھے نمبر لے بھی لیں تو بھی ان مضامین میں کوئی تخلیقی کام کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے یہاں بچوں  کے ذہن میں بچپن ہی سے مسلسل یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ اُنہیں بڑے ہو کر کیا بننا ہے؟ چاہے ان کا میلان ان مضامین کی طرف ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی طالب علم اپنے والدین  کے بنائے ہوئے ذہنی  خاکے کے مطابق ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن پائے تو وہ ذہنی پراگندگی کا شکار ہو کر کسی آسان سے مضمون کے قابل بھی نہیں رہتا۔

چنانچہ آپ کا بچہ اگر سائنس کے بجائے آرٹس کے مضامین پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھنے دیجیے۔ زندگی میں اصل مقصد تو کسی بھی چیز میں کمال حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ ممکن ہے آپ کا بچہ آرٹس  کے مضامین میں کمال حاصل کر کے آپ کی اور اپنی ناموری کا سبب بن جائے۔

یاد رکھیے! آپ کا بچہ ایک خاص بچہ ہے۔ اس کے ذہنی  رجحانات  کو نظر انداز کرکے اسے عام بچہ مت بنائیے۔ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ذرا دیکھیے! کہیں آپ قوم کے مستقبل کو محض اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر تاریک تو  نہیں کر رہے؟

شیئر کریں
10