چاول کے دانے کى آپ بیتی

عروب خلیل (ملتان)


ساون کا مہینہ تھا۔ ہر طرف بارشيں ہو رہى تھيں ۔ ايک دن ايک کسان نے بہت سارے بيجوں کے ساتھ مجھے بھى نرم و گداز زمین میں پھينک ديا۔ زمین گيلى تھى اور نمى کى وجہ سے مجھے ٹھنڈک اور سکون ملا، ليکن جونہى دھوپ نکلى تو بہت حبس ہو گیا۔ ميرا دم گھٹنے لگا۔ دو چار دن میں نے حبس میں گزارے ،پھر ايک دن مٹى کے اندر سے تھوڑا سا سر باہر نکلا تو سکون کا سانس ليا۔ ميرے ارد گرد اور بھى بہت سارے بیج ننھے منے پودوں کى صورت میں نکل کر آنکھیں مسل رہے تھے ۔ مجھے مسلسل پانى ديا جاتا رہا۔ چند دنوں بعد میں بڑا ہو کر اپنے ارد گرد موجودساتھيوں کے ساتھ لہلہانے لگا۔ اورموج مستى کرنے لگا۔ اس وقت مجھے بہت لطف آتا جب ہوا کے جھونکوں کے ساتھ میں محو رقص ہوتا۔ پتہ ہى نہیں چلا اور تین ماہ گزر گئے۔ اب میں پک کر کئى چاولوں پر مشتمل ايک ڈالى بن چکا تھا۔ ميرا رنگ بھى پيلا ہوتا جارہا تھا اور سوکھتا جارہا تھا۔ ايک دن کسان اپنے چند ساتھيوں کے ہمراہ آيا۔ ان کے ہاتھوں میں درانتیاں تھيں جس سے انہوں نے مجھ سميت سارے پودوں کو کاٹ کر ايک مشین میں ڈالا۔ میں بھوسے سے نکال کر چاول کى شکل میں آ گيا ، پھر مجھے بورے میں ڈال کر منڈى میں لايا گيا ۔ میں نے سوچا کہ اب میں چين سے رہوں گا ليکن میری قسمت میں سکون کہاں؟ پھر ايک دن ایک دکان دار نے مجھے خريد ليا ۔ پھر اس سے ايک گاہک نے مجھے خريدا اور اپنے گھر لے آيا ۔ کچھ دن میں ان کے باورچى خانہ کى المارى میں پڑا رہا۔ ايک دن چند خوش لباس مہمان ان کے گھر تشريف لائے جن کے گھر میں تھا ۔ انہوں نے مجھے المارى سے نکالا۔صاف کيا ،بہت نرمى سے دھويا، آگ پر مجھے پکايا اور سب مہمانوں نے کھا کر اپنى بھوک مٹائى ۔مجھے خوشى ہوئى کہ میں کسى کے کام آيا۔ سچ کہتے ہیں کہ دوسروں کے کام آنے کے لیے خود کو مٹانا پڑتا ہے اللہ ہم سب کو دوسروں کے کام آنے کى توفيق دے۔ (آمین)

شیئر کریں
43
1