مہک فاطمہ (ملتان)

پیارے بچو! پرانے وقتوں کا قصہ ہے، کسی دریا کے کنارے ایک بطخ رہتی تھیں۔ وہ بے چاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو ئی تووہ  ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد ہی مر جاؤں گی۔ بیمار بطخ کو یہ سن کر صدمہ ہوا۔ اسے ڈر لگا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس سے بچہ نکلنے والا تھا، اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔ وہ نزدیکی جنگل میں رہنے والے اپنے دوستوں کے پاس گئی اور انہیں اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے بطخ کی کوئی بھی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں، وہ ضرور میری مدد کرے گا۔ چنانچہ وہ مرغے کے  پاس گئی اور اسے کہا کہ آپ میرے بھائی ہیں، میرے مرنے کے بعد میرے بچے کی پرورش کرنا۔ مرغابولا: بطخ بی! میں تمہارے بچے کو ضرور اپنے پاس رکھ لیتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی، لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ مرغے سے مایوس ہر کر بطخ اپنے گھر واپس آ گئی۔ اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ مرغے کے گھر کے قریب ایک درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئی اور اس دوران ہی اس کی موت ہو گئی۔ چند دنوں بعد جب مرغی کے بچے انڈے سے باہر نکلے تو ان میں سے ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔ مرغ تو سب جان گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا۔ مرغے  نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ کوئی بطخ کے بچے سے کوئی بات نہ کرے اور نہ کوئی اس سے  کھیلے۔ دو چوزوں کے سوا سب نے مرغی کی بات مان لی۔ ان دو چوزوں کی بطخ کے بچے سے دوستی ہو گئی۔ وہ جو چیز بھی خود کھاتے تھے، اپنے ساتھ بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔ مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی۔ وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں،  ہم سب واپس آجائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہاں چھوڑ آئیں گے، اس طرح اس سے جان چھوٹ جائے گی۔ وہ لوگ دریا کی سیر کو نکلے۔کنارے پر کھیلتے کھیلتے ایک چوزہ اچانک دریا میں گر پڑا اور ڈوبنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی اور مدد کے لیے پکارنے لگی لیکن کوئی بھی مدد کے  لیے نہ آیا۔ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہذا اس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا کر تیرنا شروع کر دیا اور چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔ مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کیے پر کافی شرمندگی ہوئی اور اس نے بطخ  کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ پیارے بچو! دیکھا آپ نے کہ کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کے بچے کو بچایا، اس لیے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا سو ہو بھلا۔

شیئر کریں
51
0