جھوٹ کے پاؤں کہاں

محمد ارسلان چشتی (ڈیرہ غازی خان)

سمیر بہت اچھا بچہ تھا۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھا تھا اور کسی کام میں امی ابو کو تنگ بھی نہیں کرتا تھا لیکن اس کی ایک عادت بہت بری تھی کہ وہ جھوٹ بہت زیادہ بولتا تھا۔ امی ابو نے لاکھ سمجھایا کہ جھوٹ نہ بولا کرو۔ جھوٹ بولنے سے نقصان ہوتا ہے لیکن سمیر تھا کہ اس کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ ایک دن سمیر سکول سے واپس آیا ، بستہ ایک طرف پھینکا اور  ٹی وی دیکھنے لگا۔ امی کمرے میں آئیں تو سمیر کو ڈانٹا  کہ یہ کیا بات ہوئی !تم سکول سے واپس آ کر ہاتھ منہ دھووگے، نہ ہی یونیفارم تبدیل کرو گےاور ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاؤگے۔ سمیر نے جواب دیا کہ کل تو اتوار ہے ، اس لیے پر سکون ہو کر بیٹھا ہوں۔  اتوار ہے تو کیا ہوا ؟ یونیفارم تبدیل نہیں کرنی کیا؟ چلو شاباش ہاتھ منہ دھو لواور یونیفارم تبدیل کرو ، میں کھانا لگاتی ہوں۔ امی نے  یہ کہہ کر ٹی وی بند کر دیا۔سمیر کھانا کھا کر کمرے میں چلا آیا اور پھر ٹی وی دیکھنے لگا۔ شام کو پانچ بجے سمیر کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ مغرب کے وقت واپس آیا تو امی کھانا  رہی تھیں ، فوراً  منہ ہاتھ  دھو کر کھانے کی میز پر بیٹھ گیا ۔ امی نے ہوم ورک کے متعلق پوچھا تو سمیر نے یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ وہ کل کر لے گا۔ اسی طرح اتوار کا دن بھی گزر گیا ۔ رات کو جب وہ رسالہ پڑھ رہا تھا تو امی آئیں اور پوچھا کہ ہوم ورک کر لیا؟ سمیر نے جھوٹ بولا  : جی امی دوپہر میں کر لیا تھا۔ صبح ٹیچر نے سمیر کو ہوم ورک نہ کرنے پر خوب ڈانٹا اور اس کی امی کو شکایت کی کہ  سمیر پچھلے دو تین دنوں سے بہانے بازی کر رہا ہے۔ جب سمیر گھر آیا تو اس کی خوب شامت آئی ، امی اور ابو نے الگ الگ ڈانٹا۔ سمیر نےاس کے بعد جھوٹ  بولنے سے توبہ کر لی۔

شیئر کریں
13