عائشہ قدیر (بہاول پور)
علی الصبح جب امی کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو بڑا حسین منظر تھا،پر نور سویرا تھا۔ امی جان مجھے نماز فجر کے لیے جگا رہی تھیں۔ امی جان کو اپنے جاگنے کا یقین دلایا، پھر میں نے وضو کیا نماز ادا کی، کچھ دعائیں پڑھیں پھر سیر کے لیے قریبی پارک میں چلی گئی۔ منہ اندھیرے پارک میں بہت سناٹا تھا۔کوئی بھی سیر کے لیے نہیں آیا تھا، ایک جگہ بینچ کے بجائے کالا مونڈھا پڑا تھا، میں اس پر بیٹھنے لگی تو وہ یک دم اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کہ وہ مونڈھا نہیں بلکہ کتا تھا۔ میں زور سے چیخنے لگی، اتنے میں میری گردن پر نرم ہاتھ کا تھپڑ پڑا ، ساتھ ہی امی کی آواز آئی کہ ابھی تک اٹھی نہیں ہو، نماز کو دیر ہو رہی ہے،تب میری آنکھ پوری طرح کھلی، میں پارک کے بجائے ابھی تک اپنے بستر پر ہی تھی۔