مزمل حسین شاہ (لودھراں)

اکرم کے ابو محکمہ ریلوے میں درجہ چہارم کے ملازم تھے۔  وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے ،اب کام کرنے کی سکت بھی باقی نہیں تھی۔ لیکن اولاد کی خاطر آدمی کو بہت پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں۔ اس لیے وہ بھی اس بڑھاپے کی عمر میں  ملازمت کر رہے تھے۔ دوسری طرف اکرم ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انتہائی لاپرواہ تھا ۔ کبھی بھی سکول کا کام نہیں کرتا تھا۔ سارا دن سکول میں  شرارتیں کرتا ۔ گھر آ کر کھانا کھاتا، کھیلتا کودتا اور سو جاتا۔ بس یہی اس کی روزانہ کی عادت تھی۔ ایک دن شام کو دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اکرم ریلوے اسٹیشن جا پہنچا۔ یہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا جہاں پر مسافروں کے علاوہ اور لوگ بھی وقت گزاری کے لیے آ یاجایا کرتے تھے۔ اکرم نے دیکھا کہ اس کے ابو کو ایک نوجوان افسر بری طرح ڈانٹ رہا ہے۔ اسے بہت غصہ آیا۔ ابو سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھا جو اس کے بڑھاپے کا لحاظ بھی نہیں کر رہا تھا۔ اکرم کے ابو بولے: بیٹا !آج تم نے  یہ دیکھ لیا، ایسا روزانہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اکرم نے تب ٹھان لی کہ وہ آئندہ محنت کرے گا اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا اور اس معاشرے کو دکھائے گا کہ بڑا آدمی محنت سے اور اچھے اخلاق سے بنتا ہے۔ اور یوں اکرم کی زندگی نے اک نیا موڑ لیا۔ اس نے سخت محنت شروع کر دی۔ اساتذہ بھی اکرم کی اس مثبت تبدیلی پر بہت حیران تھے اور سال کے آخر میں اکرم نے ساتویں جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اکرم کی اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی مختصر سی زندگی کی قدر کرنی چاہیے، پڑھائی میں دلچسپی لینی چاہیے، مستقل مزاجی سے محنت کرنی چاہیے اور اپنے کردار کی طاقت کے بل بوتے پر اپنا لوہا منوانا چاہیے۔

شیئر کریں
44
4