حافظ محفوظ الحق (حاصل پور)
رمضان المبارک کا دوسر ا عشرہ اختتام پذیر ہونے والا تھا ۔حاشر ، انس اور اسد رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ حاشر کی اس ماہ مقدس میں پہلے روزہ کی روزہ کشائی ہو چکی تھی ۔ گھر کے تمام افراد ا س بات پربہت خوش تھے کہ پچھلے سال ربیعہ نے پہلا روزہ رکھا تھا ، اوراب حاشر نے بھی پہلا روزہ رکھا ہے ۔ رمضان المبارک کی معطر و مقدس ساعتیں اختتام کی طرف گامزن تھیں ۔ بچوں کی طر ف سے عید کی شاپنگ کی ضد بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔ بچوں کی ضد کے آگے ہار مانتے ہوئے آخر کار ہم نے عید کی خریداری کا پروگرام بنا ہی لیا۔ عروہ بھی ساتھ ہو لی ۔ گھر سے نکلے تو اس کی نظر حلیمہ پر پڑی جو اپنے گھر کے دروازے پر پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ معصوم سا چہرہ لیے کھڑی تھی ۔ اس نے پانچویں جماعت تک عروہ کے ساتھ تعلیم حاصل کی تھی اور اب وسائل نہ ہونے کے سبب گھر میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے لگ گئی تھی۔ ارے حلیمہ ! تجھے کیا ہوا ہے؟ کیوں اداس کھڑی ہو؟ عروہ کے استفسار پر حلیمہ نے رونی سی صورت بناتے ہوئے کہا کہ میرے ابو صبح سے شام تک گنے کا رس فروخت کرتے تھے ، اس طرح گھر کا گزر بسر بھی ہو جاتا تھا ۔ اب رمضان المبارک میں ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے ۔ہمارا گزر بسر بڑی مشکل سے ہو رہا ہے ۔ ابو کو میں نے عید کے کپڑے لانے کا کہا تو انھوں نے کہا کہ ہاتھ تنگ ہے ، اللہ سبب بنائے گا تو تمہیں عید پر نئے کپڑے لے دوں گا ۔ عروہ نے دل ہی دل میں سوچا کہ عید پر میری طرح حلیمہ بھی نئے کپڑے پہنے گی ۔سب لوگ ابو کے ساتھ مارکیٹ پہنچ گئے ۔ عید کے لیے جیولری ، جوتوں اور کپڑوں کی خریداری کی گئی۔کپڑوں کی دکان پر عروہ کو کچھ سوٹ پسند آئے تو اس نے ضد کی کہ مجھے دو سوٹ خریدنے ہیں ۔ ابو نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں نے ایک سوٹ اپنی دوست حلیمہ کو عید کے تحفے کے طور پر دینا ہے ۔ اس کی یہ بات سن کر ابو خوش ہو گئے اور کہنے لگے کہ اصل عید اسی چیز کا نام ہے ، ہم اپنی خوشیوں میں غریبوں کو شامل کر کے اپنی خوشیاں دو بالا کر سکتے ہیں ۔ سب لوگ گھر پہنچے ، عروہ اپنی امی کے ساتھ حلیمہ کو سوٹ کا تحفہ دینے اس کے گھر گئی۔ سوٹ لیتے ہوئے اس کی خوشی دیدنی تھی ۔عید کے دن وہ بھی نیا سوٹ پہن کر بڑی خوشی محسوس کر رہی تھی اور سب کو دکھا رہی تھی۔ پیارے بچو! عید کی اصل خوشی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا جائے۔