حماد رزاق (خانیوال)

پیارے بچو! گفتگو سے انسان کے اخلاق و مزاج کا پتہ چلتا ہے،اسلامی تہذیب و ثقافت میں اس کے خاص آداب بتائے گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گفتگو  میں صداقت اور سچائی کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوڑیں، ہمیشہ سچ بولیں اورہمیشہ  کام کی بات کریں، اس سے آپ کی   گفتگو میں وزن  پیدا ہوگا اور دوستوں کی نظروں میں آپ کا  وقار بڑھے گا۔فضول اور بے محل گفتگو کوئی پسند نہیں کرتا اس لیے موقع محل دیکھ کر باتیں کیا کیجیے۔ گفتگو میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس سے یہ نہ ظاہر ہو کہ آپ غیر ذمہ دار ہیں۔ نرمی اور متانت کے ساتھ گفتگو کیا کیجیے ، ہونٹوں پر تبسم اور لہجے میں شیرینی ہونی  چاہیے۔ آواز درمیانی ہونی چاہیے نہ کہ اس قدر پست کہ مخاطب سن ہی نہ سکے  اورنہ اس قدر بلند کہ مخاطب کو نفرت ہو جائے اور آپ کووہ اجڈ اور گنوار سمجھنے لگے۔زبان کو کسی بری بات سے آلودہ نہ کیجیے۔  دوسروںکی برائی نہ کیجیے، کسی کی چغلی نہ کھا ئیں ، شکایتیں نہ کریں، دوسروں کی نقلیں نہ اتارا کریں، جھوٹے وعدے نہ کیا کریں،کیوں کہ ایسی گفتگو نا پسندیدہ ہوتی ہے۔قرآن و حدیث میں ایسی باتوں کی سخت ممانعت آئی ہے۔ اپنی باتوں سے کسی کو تکلیف وآزار نہ پہنچایا کریں۔ جاہل لوگ جب باتوں کو الجھانا چاہیں تو مناسب انداز میں سلام کر کے رخصت ہو جانا چاہیے۔ حدیثوں میں آیاہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ  ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے، ایک ایک فقرہ الگ ہوتا ، کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے،  جو بات پسند  نہ ہوتی اس کو ٹال دیتے،  زیادہ تر چپ رہتے، بے ضرورت گفتگو نہ فرماتے، ہنسی آتی تومسکرا دیتے ۔گفتگومیں ہلکا پھلکا مزاح جس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے معیوب نہیں ہے۔

شیئر کریں