محمد محسن  (بہاول پور)

میں ایک لکڑی کا کانا ہوں۔ میں گاؤں کی پر کیف فضا میں پروان چڑھا۔نشوونما کے بعد جب میں پک کر سخت  ہوا  تو  گاؤں کے ایک غریب کسان نے  مجھے  اپنے دوسرے ساتھیوں کے  ساتھ کاٹ کر ایک بیوپاری کو فروخت کر  دیا۔  وہاں سے  مجھے شہر میں ایک کتب خانہ کی فیکٹری میں لایا گیا۔ وہاں موجود ایک  آدمی نے ہم سب کی  چھانٹی  کی اور پھر مجھے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ  ان سے علیحدہ  کر کے کسی کمرے  کے کونے میں ڈال دیا گیا۔ میں وہاں کسی انہونی  کے انتظار میں کئی دن پڑا رہا۔ آخر ایک دن ایک شخص ہمیں وہاں سے اٹھا  کر  باہر لے  گیا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھیوں سے  علیحدہ  کیا  اور پھر  میرے سر پر زخم لگا کرمجھے قلم بنا دیا۔  میں قلم کی صورت اختیار  کر کے  علم کا خزانہ بن گیا۔  بعد میں  مجھے میرے دیگر  ساتھیوں کے ہمراہ ایک  گتھی  کی شکل میں لفافے  میں  ڈالا گیا جہاں سے مجھے ایک دکان دار اپنی  سٹیشنری  کی  دکان پر بیچنے کے  لیے لے  گیا۔ ایک دن  ایک سکول کا  طالب علم دکان پر  آیا  اور مجھے خرید کر  لے گیا۔ اس نے مجھے  سنبھال کر اپنے بستے  میں رکھا۔ اب میراسر روشنائی میں ڈوب کر علم کی روشنی میں بنائے ہوئے روشن الفاظ  اگلتا  ہے۔  مجھے ایک تکلیف نے کیا سے کیا بنا دیا۔ پیارے بچو ! ہر تکلیف کے  بعد روشن مستقبل ہے۔

شیئر کریں
30
9