نائلہ شفقت (لودھراں)
احمد آج سکول سے پہلی بار بھاگا تھا۔ گھر سے تووہ سکول جانے کے لیے نکلا تھا لیکن قریبی پارک میں جاکر بیٹھ گیا۔ مگر ساتھ ہی ڈر بھی رہا تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔ ہمت کر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہا اور چھٹی کے وقت گھر چلا گیا۔ رات کو جب وہ بستر پر لیٹا تو سوچنے لگا کہ اب کبھی سکول نہیں جاؤں گا مگر صبح پھر اسے سکول کے لیے بیدار کر دیا گیا۔ احمد شروع سے ہی پڑھائی سے دور بھاگتا تھا جب کہ اس کے بہن بھائی بہت شوق سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا جو پڑھائی میں اس کی مدد کرتا۔ سکول سے غیر حاضر رہنا اب اس کی عادت بن چکی تھی۔ اسی طرح ایک دن پارک میں بیٹھے بیٹھے جب وہ اکتا گیا تو پارک کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد کسی نے اسے پکارا۔ دیکھا تووہ پارک کا چوکیدار تھا جو اسے کہہ رہا تھا کہ تم کون ہو ؟ میں تمہیں روز یہاں دیکھتا ہوں،تم نے سکول کی وردی بھی پہن رکھی ہے، کیا تم سکول سے بھاگے ہوئے ہو؟ احمد نے ڈرتے ڈرتے جواب دیاکہ میں پڑھنا نہیں چاہتا مگر میرے والدین مجھے زبردستی سکول بھیج دیتے ہیں، اس لیے میں یہاں آ جاتا ہوں۔ اس کی بات سن کر چوکیدار نے ٹھنڈا سانس بھر ا اور کہاکہ کبھی میں بھی تمہاری طرح ایک بچہ تھا۔ میرے والدین بھی چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جاؤں، مگر میں سکول جانے کے بجائے گلیوں میں کھیلتا رہتا اور بڑا ہو گیا،چونکہ میں تعلیم یافتہ نہیں تھا اس لیے آج یہاں چوکیداری کر رہا ہوں، مجھے کسی نے نہیں روکا ورنہ شاید میں بھی پڑھ لیتا۔ لیکن تم میری بات مانو اور پڑھ لو، وگرنہ میری طرح تمہارے والدین کے خواب بھی چکنا چور ہو جائیں گے، خوش نصیب بچوں کو ہی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے، لہٰذسکول جاؤ، والدین کے خواب بھی پورے کرو اور خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو جاؤ۔ احمد نے لرزتی آواز کے ساتھ کہاکہ آپ کا بہت شکریہ، آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ ایک نئے عزم کے ساتھ سکول کی جانب چل پڑا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کی امی اس کا انتظار کر رہی تھیں، انہوں نے اسے دیکھ کر کہا میرا بیٹا سکول سے تھک کر آیا ہے۔ منہ ہاتھ دھو لو ، میں کھانا لگاتی ہوں۔ احمد دل ہی دل میں اپنی حرکت پر بہت شرمندہ تھا۔ وہ چوکیدار کا بھی شکر گزار تھا جس نے بالکل درست وقت پر اس کی رہنمائی کی تھی۔