قراۃ العین صدیقی (ملتان)

حال ہی میں بہاول پور کی ایک یونی ورسٹی کا دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا۔ پولیس نے یونی ورسٹی کے ایک شخص کو منشیات کے شبہ میں گرفتار کیا تو ڈرگز کے ساتھ ساتھ دوران تلاشی اس کے موبائل سے یونی ورسٹی میں زیر تعلیم لڑکیوں کی نازیبا تصاویر اور وڈیوز بھی برآمد ہوئیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ ہمارے سماجی ذرائع ابلاغ کے کچھ زیادہ سوشل لوگوں نے جو ویڈیو کلپس اس سکینڈل کے خلاف بنائے اس میں کافی لڑکیوں کی یونی ورسٹی کی تصاویر بھی شیئر کر دیں۔ اب واللہ اعلم کہ وہ تصاویر بھی اس موصوف کے موبائل سے تھیں کہ یونی ورسٹی کی عام روٹین میں بنائی گئی سرکلز کی تصاویر ۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے بنا چہرے بلر کیے تصاویر شائع کرنی چاہیئے تھیں؟ ایسے تو کئی گھرانوں کی لڑکیاں معاشرے کے سوالوں سے بچنے کے لیے کوئی مزید غلط قدم بھی اٹھا سکتی ہیں۔غلطی چاہے سسٹم کی ہویا مردوں کے بنائے گئے اس معاشرے کی ہو ۔ ہمارا بے حس معاشرہ پھر بھی اس کا ذمہ دار بھی کہیں نہ کہیں عورت کو ٹھہرا دیتا ہے۔اکثر کہیں نا کہیں، کسی نہ کسی یونی ورسٹی یا کالج میں ایسے واقعات طالبات  کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ جب سوشل میڈیا پر بات آتی ہے تو اس بیچاری لڑکی کی ہی عزت کی مزید دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ سارا سسٹم اس لڑکی کو قصوروار ٹھہرا دیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے والے بہت سے الزامات میں سب سے پہلا الزام جو سامنے آتا ہے وہ یہ کہ زیادہ نمبر لینے کے چکر میں استاد کے ہاتھوں بلیک میل ہو گئی ہو گی۔ فرینک زیادہ ہو گی۔ زیادہ مسکرا کے بات کرتی ہو گی،  ماڈرن ہوگی۔ کپڑے فیشن ایبل پہنتی ہو گی۔ آزاد خیال ہو گی۔ مگر یہاں تو بات ایک آدھ لڑکی کی نہیں ہے ۔ سیکڑوں گھرانوں کی سیکڑوں بہنوں بیٹیوں کی ہے،جنہیں جانے کیسے کیسے مجبور اور بلیک میل کیا گیا ہو گا۔ کیا بنے گا اس معاشرے کا؟ہماری قوم کی بیٹیوں کا؟جو کبھی کبھار گھر کی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ ادھر کبھی کسی اپنے ہی نام نہاد محافظ، اپنے ہی کسی رشتہ دار کی درندگی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔تو کبھی اُس مقدس چار دیواری میں جسے علمی درس گاہ کہا جاتا ہے  جو قوم کی اصلاح کی ضامن ہوتی ہے ،و ہی درس گاہ، اُس کی چار دیواری میں چھپے چند بھیڑیے اس بیٹی کے سر سے چادر چھین لیں تو کون ذمہ دار ہے ؟ آخر کب تک چلے گا یہ سلسلہ؟

وہ والدین جو آنکھوں میں جانے کتنے سپنے سجائے اپنی بچیوں کے بہتر مستقبل کے خواب لیے انہیں بھیجتے ہیں ، ان کا اعتماد درس گاہوں سے اٹھ گیا تو کیا ہو گا؟جانے کتنی بچیاں غربت کی مشقت کاٹ کر فیس کے پیسے جمع کر کے داخلہ لیتی ہیں۔ جانے کتنی ایسے گھروں سے ہوں گی جہاں والدین پہلے ہی یونیورسٹی کی پڑھائی کے خلاف ہو ں گے اور کتنے جتن کر کر کے ان بچیوں نے اپنے والدین کو راضی کیا ہو گا کہ پڑھنے دیں۔

آخر کب ختم ہو گا یہ سلسلہ؟

کب تک بنت حوا ڈرتی ، سسکتی، روتی ، بلکتی ، ہر پل ہر لمحہ گھٹ گھٹ کے مرتی رہے گی؟

کب حوا کی بیٹی اتنی بہادر بن سکے گی کہ اپنی طرف اٹھتی ہوئی ہر میلی نظر کی آنکھیں نوچ ڈالے۔

کب وہ ان درندوں کی درندگی کے خوف سے نکل کر  اکیلے دن ، رات میں کہیں آزادی سے اپنے روزمرہ کے کام نمٹا سکے گی۔

کب اس میں اتنی ہمت پیدا ہو گی کہ غلط کو برملا بنا ڈرے غلط کہہ سکے؟

کب وہ خود کو اس مردوں کے معاشرے کے خوف سے نکال پائے گی؟

کب وہ اپنی پسند کا کھل کر اظہار  اور  ناپسند کا کھل کر انکار کر پائے گی؟

کب وہ آزادی سے اپنی مرضی سے آزاد فضا میں کھل کر سانس لے پائے گی؟

جانے ایسا کبھی ہو گا بھی کہ نہیں ۔ مگرکاش کہ والدین بچیوں کی پرورش کرتے وقت بچیوں میں اتنی خود اعتمادی اور دوستی کا تعلق پیدا کر سکیں کہ کم از کم وہ اپنا ہر مسئلہ اپنی ہر پریشانی بنا کسی الزام کے، خوف  کے ان کو بتا سکیں اور معاشرے کے ناسوروں کے ہاتھوں سے بلیک میل ہونے سے بچ سکیں۔خدا ہر بیٹی کا حامی و ناصر ہو

شیئر کریں