محمد نقاش (ملتان)

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ ایک سال حج کے لیے گئے۔ آپ ادائیگی حج کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سو گئے۔ خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے اترے، ایک نے دوسرے سے پوچھا: اس سال کتنے لوگوں نے حج کیا؟  دوسرے نے جواب دیا: چھ لاکھ آدمی حج کے لیے آئے تھے۔ پہلے تو کسی کا حج قبول نہ ہوا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے علی بن موفقؒ نامی  ایک موچی کے طفیل جو کہ دمشق میں رہتا تھا اور اس سال حج میں شامل بھی نہ ہو سکا، سب کے حج قبول فرما لیے۔

بیدار ہونے کے بعد آپ دمشق کی جانب روانہ ہو گئے تاکہ اس شخص سے اس کے عمل کے بارے میں دریافت کریں۔ دمشق پہنچنے پر اس کو تلاش کر کے تمام خواب سنایا اور اس سے اس کے عمل کے بارے میں پوچھا۔ وہ یہ تمام باتیں سن کر رونے لگا اور کہنے لگا: حضرت! میں تیس سال سے حج کی خواہش رکھتا تھا ، چنانچہ جوتیوں میں پیوند لگا لگا کر زادِ راہ جمع کرتا رہا۔ اس سال جب کہ میرے پاس تین سو درہم جمع ہوگئے تو میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا۔ ایک رات میری بیوی نے مجھ سے کہا: ہمسائے کے گھر سے سالن کی خوشبو آ رہی ہے اور میرا دل بھی کھانے کو چاہ رہا ہے۔ چنانچہ پڑوسی سے کچھ کھانا  مانگ لاؤ۔ میں اپنے ہمسائے کے پاس پہنچا اور اس سے کھانا مانگا تو اس نے کہا: سالن دینے میں تو کوئی اعتراض نہیں لیکن نہ مانگو تو بہتر ہے۔  میں نے سبب پوچھا تو اس نے بتایا: کئی دن ہو گئے ہمیں کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ میرے بچے بھوکے تھے اس لیے میں جنگل کی جانب اکیلا نکل گیا۔  وہاں ایک مردار پڑا ہوا تھا۔  میں اسی کا گوشت لے آیا اور وہی ہم پکا رہے ہیں۔ میں نے جب یہ سنا تو میرے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ اسی وقت گھرگیا اور 300  درہم لا کر اسے دیے اور اسے کہا کہ اسے خرچ کر لو ،میں اسی کو حج سمجھ لوں گا، بس میرا یہی عمل ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ اس واقعہ کے بعد آپؒ میں ایثار کی صفت حد سے بڑھ گئی۔

پیارے بچو! اس واقعہ کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم بھی  اپنی ذات میں ایثار کا جذبہ بڑھانے کی خوب کوشش کریں۔ اگر باہر توفیق نہ ملےتو کم از کم اپنے گھر والوں کے لیے ہی اپنی خواہشات کو قربان کر کے ایثار کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

شیئر کریں
1219
13