ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی

کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی

لہرا دیا ہے کھیت کو  ہلتی ہیں بالیاں

پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں

پُھلواریوں میں تازہ شگوفے  کھلی چلی

سویا ہوا تھا سبزہ  اُسے  تُو  جگا چلی

سرسبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر

تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر

پڑ جائے اِس جہاں میں تیری اگر کمی

چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی

چڑیوں کو یہ اُڑان کی طاقت کہاں رہے

پھر کائیں کائیں ہو نہ غُٹرغُوں نہ چہچہے

بندوں کو چاہیے کہ کریں بندگی ادا

اُس کی کہ جِس کے حکم سے چلتی ہے یہ ہوا

(اسماعیل میرٹھی)

شیئر کریں
2736
40