محمد زیب (لیہ)

میرے گھر کے قریب ایک آٹو ورکشاپ تھی، جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کام کرتا تھا، سب اسے چھوٹو کہہ کر پکارتے تھے۔ اس لڑکے کی عمر نو یا دس سال ہو گی۔ میں اپنے سکول کے ساتھیوں کے ساتھ آتے جاتے اسے دیکھا کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہتا کہ شکر ہے، میں یہ کام نہیں کرتا، ورنہ میرے کپڑے بھی اس کی طرح گندے ہوتے اور مجھے بھی ان گندے ٹائروں کو ہاتھ لگا کر کھولنا پڑتا۔ وقت گزرتا گیا۔ میں چھٹی سے میٹرک تک پہنچ گیا۔ چھوٹو بھی اب کچھ بڑا ہو گیا تھا اور اب وہ زیادہ اعتماد سے کام کرتا تھا، مگر کپڑے اب بھی وہی میلے کچیلے ہوتے۔ میں کبھی کبھار اس سے کہتا کہ تم اپنی زندگی برباد کر رہے ہو، کاش! تم بھی کچھ پڑھ لکھ لیتے اور ہماری طرح صاف ستھرے رہ کر معاشرے کا ایک اچھا فرد بنتے۔ چھوٹو ہمیشہ جواب دیتا کہ آدمی پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو، سب سے بڑی چیز انسانیت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی ہے۔ بہت سارا وقت گزر گیا۔ میں نے ملک کی ایک معروف یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کی۔ چونکہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوا تھا، اس لیے مجھے ایک فرم میں بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ میرے والدین نے میری شادی کرا دی۔ میری دو بیٹیاں ہوئیں۔ میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا اور اکثر اس کا تذکرہ بھی کر دیتا تھا کہ علم نے مجھے نفع دیا اور آج میں اپنی تعلیم کی وجہ سے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر رہا ہوں۔ ایک مرتبہ میں اپنی کار میں کہیں جا رہا تھا کہ اچانک اس کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ قریب ہی ایک آٹو ورکشاپ تھی۔ میں گاڑی کو دھکا لگاتا ہوا وہاں تک پہنچا۔ اتفاق سے یہ ورکشاپ وہی تھی، جہاں کبھی چھوٹو کام کرتا تھا۔وہاں ایک کاریگر نے ٹائر کھولا۔ ایک شخص پر نظر پڑی جو ورکشاپ کا مالک لگ رہا تھا، مگر وہ بھی میلے کپڑوں میں تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ یہ چھوٹو تھا اور اس سے زیادہ تعجب مجھے ان چند نوجوان کاریگروں پر ہوا جو کافی پڑھے لکھے اور مہذب لگ رہے تھے اور بہت ہی ادب سے بات کر رہے تھے۔ میں قریب گیا اور چھوٹو کو سلام کیا۔ وہ بھی مجھے پہچان گیا۔کچھ دیر بات ہوئی۔ پنکچر لگ چکا تھا۔ میں چھوٹو سے رخصت ہوا اور جاتے ہوئے ان نوجوانوں کو بتایا:اس ورکشاپ کا مالک چھوٹو میرا پرانا واقف کار ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: جناب! چھوٹو نہ کہیں ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ آج جو ہم آپ کے سامنے ہیں تو ان ہی کی بدولت ہیں۔ ہماری فیس، یونیفارم، کتابیں سب کا خرچ یہی اُٹھاتے ہیں۔ ہمارے علاوہ کئی اور طالب علموں کا خرچ بھی اُٹھاتے ہیں۔ یہ چھوٹو نہیں یہ تو ہمارے لیے رحمت کا فرشتہ ہیں۔ ان کی یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے پڑھ لکھ کر بڑا کام کیا یا اس نے دوسروں کو پڑھا لکھا کر بڑا کام کیا۔

شیئر کریں
624
3