حماد عارف (لیہ)

احمد ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس کو دال اور سبزیاں کھانا بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ بریانی، پیزا اور برگر جیسی چیزیں شوق سے کھاتا تھا۔ ایک دن وہ سکول سے آ کر کھانا کھانے بیٹھا تو سالن میں بینگن دیکھ کر اس کا منہ بن گیا۔ امی سے کہنے لگا: آپ کو پتا ہے مجھے دال اور سبزیاں بالکل پسند نہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ کھانے کے سامنے سے اُٹھ کر چلا گیا۔ اس کی امی نے اسے سمجھایا کہ دالیں اور سبزیاں تو ہماری صحت کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس نے ایک نہ سنی۔ فریج کھولا کہ کھانے کو کچھ ہو گا لیکن اس میں کچھ نہیں تھا۔ اس کے پاس کچھ رقم تھی۔ اس نے برگر کی دکان سے برگر لیا اور گھر آیا، برگر کو پلیٹ میں رکھ کر وہ فریج سے پانی کی بوتل اُٹھانے چلا گیا۔ واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے برگر پر تین چار مکھیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس نے وہ برگر پرندوں کے لیے چھت پر رکھ دیا۔ اب وہ چپس خرید کر گھر لایا تو دیکھا کہ اس میں سے ایک لال بیگ نکل کر بھاگا۔ بھوک کے ساتھ ساتھ اس کا غصہ بھی بڑھ رہا تھا۔ اس نے بریانی خریدی تو اس میں سے بال نکل آیا۔ جھلا کر اس نے فریج میں دیکھا تو اس میں ککڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا موجود تھا۔ اسی ککڑی کے ٹکڑے کو، جسے کھانا تو دور کی بات وہ ہاتھ تک لگانا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کو وہ بے صبری کے ساتھ کھانے لگا، لیکن فوراً اسے احساس ہو گیا کہ وہ تو خراب ہو چکا ہے۔ وہ مایوس ہو کر باورچی خانے کے دروازے پر ہی بیٹھ گیا۔ ذرا دیر بعد اس کی امی وہاں سے گزریں اور پوچھا: بیٹا! کیوں یہاں بیٹھے ہو، کیا بہت بھوک لگ رہی ہے؟ اس نے اُداسی سے سر جھکا کر تمام احوال امی کو سنا دیا۔ امی نے اسے سمجھایا کہ تم رزق کی بے ادبی کرتے ہو، یہ اس کی سزا ہے۔ بیٹا! بہت سے لوگوں کو تو یہ بھی نہیں ملتا۔ اس لیے رزق کی قدر کرو، ورنہ خدا نہ کرے نوالے نوالے کو ترس جاؤ گے۔ اس نے امی سے پکا وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اللہ کے رزق کی ناقدری بالکل نہیں کرے گا۔ اس کی امی نے کہا کہ ہاتھ منہ دھو لو، میں کھانا لاتی ہوں۔ اب وہ اسی بینگن کو بہت بے صبری سے کھا رہا تھا جس کے سامنے سے وہ اُٹھ کر چلا گیا تھا۔

شیئر کریں
887
10