علیزہ لیاقت  (وہاڑی)

پیارے بچو! کسی گاؤں میں ایک مفلس لڑکی رہتی تھی جس کا نام کلثوم تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ اسی گاؤں میں ایک بدمزاج رئیس زادی زویا بھی رہتی تھی۔ ایک دن کلثوم پریشانی کی حالت میں جنگل کے پاس سے گزر رہی تھی۔ جب وہ ندی کے کنارے کے پاس پہنچی تو اچانک اس کا پاؤں ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ زمین پر گر گئی۔ اس کا پاؤں بہت زیادہ زخمی ہو گیا۔ اس نے درد کے باعث بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ اسی وقت رئیس زادی زویا اپنی خادماؤں کے ساتھ وہاں سے گزری تو اس نے کلثوم کو زخمی حالت میں روتے ہوئے دیکھا، کلثوم نے رئیس زادی کو دیکھ کر اس سے مدد طلب کی۔ اس کی خستہ حالت دیکھ کر رئیس زادی ہنسنے لگ گئی اور کہنے لگی: بے وقوف لڑکی! تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہاری مدد کردوں گی؟ رئیس زادی  نے کلثوم کا بہت مذاق اُڑایا اور وہاں سے چلی گئی۔ کلثوم کو رئیس زادی کے برے رویہ پر بہت افسوس ہوا ۔ وہ درد سے کراہنے لگی تھی۔ اسی دوران ندی سے اچانک ایک نیک دل پری باہر آئی، اس نے اپنے جادوکی چھڑی سے کلثوم کا زخم ٹھیک کیا اور اُسے ایک جادوئی انگوٹھی دے کر کہا کہ یہ انگوٹھی انگلی میں پہنو، یہ تمہاری مدد کرے گی۔ کلثوم  نے پوچھا کہ یہ انگوٹھی میری مدد کیسے کر سکتی ہے؟ لیکن اتنے میں پری غائب ہوچکی تھی۔ کلثوم وہ انگوٹھی انگلی میں پہن کر اپنی جھونپڑی میں واپس آئی  اور اچھا کھانا کھانے کی خواہش کی۔ پلک جھپکنے میں بہت سی قسموں کا لذیذ کھانا جھونپڑی میں حاضر ہو گیا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔ کلثوم اب امیر ہو چکی تھی۔ اس کے پاس اب کسی چیز کی کمی نہیں رہی تھی۔ اس کی مالداری کے قصے جب رئیس زادی تک پہنچے تو اس نے کلثوم کو اپنے پاس بلایا اور اس  سے امیر ہونے کی وجہ پوچھی، سادہ لوح کلثوم نے سب کچھ رئیس زادی کو بتا دیا۔ کلثوم کی بات سن کر اسی وقت رئیس زادی ندی سے پاس گئی اور نیک دل پری کو بلایا۔ اس نے پری سے فرمائش کی کہ مجھے بہت ساری دولت چاہیے۔ اس کی لالچ پر پری کو بہت زیادہ غصہ آیا، اس  نے اسے بددعادی کہ وہ اگلے سو سالوں تک کبھی نہ بول پائے۔ رئیس زادی کو اپنے کیے پر بہت پچھتائی لیکن اب وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی ۔ کلثوم  نے اپنی بقیہ زندگی بہت خوشی سے گزاری اور لالچی رئیس زادی نے خاموشی سے۔

شیئر کریں
1104
15