محمد عمر رحمان (ملتان)
ایک بوڑھے باپ نے اپنے تینوں بیٹوں کو روبرو بلا کر اپنی تمام نقدی جائیداد کو مساوی طور پر تقسیم کر دیا اور ایک بیش قیمتی موتی دکھلا کر کہا کہ اس کا حق دار وہ بیٹا ہو گا جو میری زندگی کے بقیہ چند ایام میں سب سے اچھا کوئی نیکی کا کام کرے گا۔ ایک لڑکے نے کچھ عرصے کے بعد آکر کہا کہ اب وہ موتی دیجئے۔ بوڑھے نے پوچھا کس نیکی کے عوض تم یہ موتی طلب کرتے ہو؟ بیٹے نے کہا کہ ایک شخص نے پانچ ہزار روپے میرے پاس بطور امانت رکھے ،جس کے متعلق نہ کوئی نوشت تھی اور نہ ہی کوئی گواہ تھا ، اس شخؔص کے واپس آنے اور امانت طلب کرنے پرمیں نے اسے پانچ ہزار روپے کی امانت اسے واپس کر دی ، اس سے بڑھ کر نیکی کا کام اور کیا ہو سکتا ہے۔بوڑھے باپ نے ہنس کر کہا یہ تو نیکی کا ایک معمولی سا کام ہے جس کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ ہےکہ تم ایک گناہ سے بچ گئے ، اگر دوسرے دونوں لڑکوں نے میری زندگی میں اس سے زیادہ اچھا کام نہ کیا تو مرتے وقت تم کو یہ موتی دے دیا جائے گا۔
دوسرا بیٹابوڑھے باپ کی خدمت میں چند روز کے بعد حاضر ہوا اور وہ موتی طلب کیا ۔بوڑھےنے پوچھا کس نیکی کے عوض موتی مانگتے ہو؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ایک دن دریا نہایت طغیانی پرتھا ۔اتفاقاً ایک لڑکا پل سے دریا میں گر گیا ۔ اس کے ماں باپ اور دیگر دوسرے لوگوں میں سے کسی کے پاس اس کو نکالنے کا حوصلہ نہ ہوا تو میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کربڑی مشکل سے اس لڑکے کو زندہ نکالا ۔ اس سے بڑھ کر نیکی اورقربانی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔بوڑھے نے ہنس کر کہا کہ ہمدردی اور انسانیت کا یہ ایک معمولی فعل ہےاور اگر تیسرے بیٹے نے اس سے بہتر کوئی کارنامہ نیکی کا نہ دکھلایا تو یہ موتی تم کو دے دیا جائے گا۔
تیسرا بیٹا چند دن کے بعد باپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس نے اپنے دونوں بھائیوں کے برعکس موتی تو طلب نہ کیا البتہ اپنی کارگزاری کچھ یوں بیان کی کہ میرا ایک جانی دشمن شراب سے مدہوش کسی پہاڑ پر ایک غار کے دہانے اس طریقے سے بے ہوش پڑا تھا کہ ذرا سی حرکت کرنے پر بھی وہ اس قدر بلندی سے گر کر ضرور مر جاتا۔ باوجود اس کے کہ میں اس کو اپنا جانی دشمن جانتا تھا، میں نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ کر اسے اٹھا لیا ،تاکہ اگر وہ جاگ بھی جائے تو میری شکل دیکھ کر شرمندہ نہ ہو اور رات کی تاریکی میں اس کو اپنی پشت پر لاد کراس کو گھر چھوڑ آیا ۔ بوڑھے نے بلاتامل وہ موتی اس کے حوالے کیا اور کہا کہ درحقیقت تیری نیکی قابل صدہزار ستائش اور حقیقی نیکی ہے اوراس موتی کا تیرے سے زیادہ مستحق نہیں ہو سکتا۔ پیارے بچو! اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اصل نیکی وہی ہے جو دشمنوں اور برے لوگوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔