کوہ سلیمان: بلوچ تہذیب و تمدن کا مرکز

رفیق مزاری (روجھان)

کوہ سلیمان ایک طویل پہاڑی سلسلے کا  نام ہےجو افغانستان اور پاکستان میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ اپنی ہیبت اور ہیئت کے اعتبار سے یکتا ہے۔ اس پہاڑ کے بارے میں کئی قصے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ پہاڑ اتنا پراسرار ہے کہ مقامی لوگ اسے برقعہ پوش پہاڑ کہتے ہیں۔ برقعہ پوش اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات یہ پہاڑ انتہائی قریب سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اگر بارش ہو جائے تو یہ میلوں دور سے صاف اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ جنوب مشرقی افغانستان میں زابل اور زیادہ حصہ لویہ پکتیا اور قندھار کے شمالی مشرقی حصہ، پاکستان میں جنوبی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان کے شمالی علاقوں جب کہ صوبہ پنجاب کے جنوب مغربی علاقوں پر مشتمل ہے۔

کوہ سلیمان بلوچ اور پختون تہذیب و تمدن مرکز ہے۔ بلوچوں نے جب برصغیر میں قدم رکھا تو زیادہ بلوچوں نے کوہ سیلمان کو مرکز بنایا جس کی بڑی وجہ روز گار کے لئے گلہ بانی کا پیشہ تھا۔ 3487 میٹر بلند تخت سلیمان کوہ سیلمان کی سب بلند چوٹی ہے۔ روایت ہے کہ اس جگہ پر حضرت سلیمان کا تخت جو ہوا میں اڑتا جا رہا تھا، چند لمحوں کے لیے ٹھہر گیا۔ اس پہاڑ کی چوٹی کو بھی دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے یہ خاص طور پر بیٹھنے کی جگہ ہو۔ اس پہاڑ پر جنات کی موجودگی کے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ علاقہ صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں واقع ہے۔

گزشتہ دو ہزار سال کی تاریخ میں ایران، افغانستان و دیگر ریاستوں کے سلاطین کوہ سلیمان کے اس پہاڑی سلسلہ سے گزر کر برصغیر کے میدانی علاقوں پہ حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ جنگی لشکروں کے ساتھ ساتھ اسی پہاڑی راستے سے تجارتی قافلے بھی ہمہ وقت گزرتے تھے۔ ضلع ڈیرہ غازی خان کے مغرب کی جانب اس پہاڑ پہ ایک قدرتی درہ ہے۔  یہ درہ جنگی اور تجارتی حوالے سے برصغیر کے تاجروں اور لشکروں کی اولین ترجیح ہوا کرتا تھا۔ اس درہ کو ایران، افغانستان اور ہندوستان کے لوگ تجارتی و جنگی مقاصد کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔

کئی صدیوں سے کوہ سلیمان بلوچ اور پشتون قبائل کا مسکن ہے۔ اس کی ایک وجہ شہرت اولیاء اللہ کی مزارات  بھی ہیں۔ کوہ سلیمان سے متصل ایک درگاہ حضرت شاہ سلیمان تونسوی کی ہے۔ ہر سال ان درگاہوں پر عرس کی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں دور دراز سے ہزاروں عقیدت مند اور زائرین شرکت کرتے ہیں۔ یہاں عظیم صوفی بزرگ سید احمد سلطان المعروف سخی سرور نے گیارویں صدی میں قیام کیا اور آس پاس کے ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ اس صوفی بزرگ کے وصال کے بعد یہاں سے گزرتے مغل سلطنت کے کئی بادشاہ اس صوفی بزرگ کی آخری آرام گاہ پہ دعا مانگ کر جنگوں کے لئے آگے سفر کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق تیرہویں صدی میں اس صوفی بزرگ کی درگاہ بنائی گئی۔ حضرت سخی سرور کے مزار کو پہلی مرتبہ دو ہندو بھائیوں لکھپت اور جسپت رام نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ بعد میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے خصوصی دلچسپی سے دربار حضرت سخی سرور کو مغل طرز تعمیر کے مطابق بہترین نقش و نگار کے ساتھ بنوایا۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں کافی تعداد میں ہندو اس دربار سے عقیدت کی وجہ سے قیام پذیر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی اکثریت ہجرت کر کے ہمسایہ ملک چلی گئی۔ وہاں جا کر ان ہندو اورسکھ مذہب کے عقیدت مندوں نے اس عظیم صوفی بزرگ کے دربار کی تشبیہات بنائیں۔

 کوہ سیلمان اور دریائے سندھ کے درمیان ایک بلوچ کا مزار ہے جسے اپنی سخاوت اور دریا دلی کی وجہ سے سخی رنداں کہا جاتا ہے۔ آپ کا تعلق بھی مزاری بلوچ شہہ قبیلے سے ہے۔ کہا جاتا ہے آپ کا شجرہ نسب بنو ہاشم سے ملتا ہے ۔ آپ نہایت درویش اور سخی انسان تھے ۔ آپ کا مزار تین صوبوں کے سنگم روجھان مزاری میں واقع ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کے مزار پر ہر وقت بلوچستان ،سندھ اور پنجاب کے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے ۔

 فورٹ منرو  ضلع  ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6470 فٹ کی بلندی پر ایک پہاڑ ہے۔ یہ ڈیرہ غازی خان سے قریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس پرفضامقام پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب جنوبی پنجاب میں شدید گرمی کا موسم ہوتا ہے تو عوام کی ایک بڑی تعداد اس پر فضااور ٹھنڈے تفریحی مقام کا رخ کرتی ہے۔ فورٹ منرو کو اگر جنوبی پنجاب کا مری کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اگر جدیدسہولیات فراہم کر دی جائیں تو اس علاقے کو پاکستان میں گرمیوں کی بہترین سیر گاہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔  فورٹ منرو میں اناری ہل، جھیل، پیالہ، باغ اور فورٹ منرو کا بازار دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

راجن پور میں کوہ سلیمان کےپہاڑی سلسلہ میں واقع  ایک خوب صورت مقام  ماڑی  ہے ۔یہ علاقہ تمن گورچانی میں واقع ہے ۔ضلع راجن پور جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں پہاڑ، دریا اور میدان سب کچھ موجود ہے۔ مغرب کی جانب کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ میں ماڑی کا خوب صورت مقام ہے۔ یہ علاقہ سطح سمندرسے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمیوں میں جب پنجاب بھر میں سخت گرمی ہوتی ہے ایسے میں ماڑی کا موسم سرد ہوتا ہے ۔یہاں کے راستے انتہائی دشوار گزار ہیں ۔ نہ یہاں بجلی ہے نہ ہی پانی ۔ ماڑی کے پہاڑ قدرتی معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔ جب بھی ان پہاڑوں میں بارش ہوتی ہے تو ندی نالوں سے پانی سیلاب بن کر راجن پور کے کئی علاقوں کو بری طرح متاثر کرتاہے۔ ماڑی کی تعمیراوردیکھ بھال سے یہ علاقہ نہ صرف پنجاب کا بڑا سیاحتی مقام بن سکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔

ضلع راجن پور  کی تحصیل روجھان  کی  حدود میں کوہ سیلمان کا ایک اور پہاڑی سلسلہ گیان داری ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی اونچائی  1250 میٹرہے ۔ یہ صوبہ بلوچستان اورپنجاب کی سرحد پر واقع ہے ۔یہ مزاری قبائلی علاقہ روجھان مزاری میں واقع ہے۔ دریائے سندھ سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ خنکی کے اعتبار سے یہ علاقہ ماڑی اور فورٹ منرو کی طرح ہے لیکن یہاں تک پہنچنے کے لئے کوئی پختہ سڑک نہیں ہے اور دیگر سہولیات کا انتہائی فقدان ہے ۔اگر اس مقام پر توجہ دی جائے تو  یہ ایک خوب صورت سیاحتی مرکز بن سکتا ہے ۔

شیئر کریں
215
3