محمد اویس (وہاڑی)
میں ایک کتاب ہوں۔ مجھے میرے مصنف نے بڑی محنت اور محبت سے تحریر کیا ہے۔ پھر ناشر نے مجھے بڑی خوب صورتی سے شایع کیا ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک بڑے ڈبے میں پیک کر کے شہر میں کتابوں کی سب سے بڑی دکان پر بھیج دیا گیا۔ دکان کے مالک نے مجھے ڈبے سے نکال کر بڑے اہتمام کے ساتھ خوب صورت شو کیس میں سجا دیا۔ اس دکان کے بالکل سامنے کھلونوں اور ویڈیو گیمز والی دکان تھی۔ شو کیس کی رونق بنے مجھے ایک ہفتہ ہو گیا تھا لیکن کسی نے مجھے خریدنے میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ ویڈیو گیمز اور کھلونوں والی دکان میں لوگوں اور بچوں کا بہت ہجوم رہتا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی کہ بچے کتابوں کو چھوڑ کر ویڈیو گیمز اور کھلونوں میں دلچسپی لے رہے ہیں، وہ چیزیں خرید رہے ہیں جو ان کووقتی تفریح کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں، ویڈیو گیمز کا زیادہ استعمال بینائی بھی کمزور کر دیتا ہے۔ شو کیس کی زینت بنے مجھے ایک سال ہو گیا تھا لیکن مجھے خریدنے کوئی نہیں آیا۔ اب مجھ پر گردوغبار پڑ گیا تھا۔میں بہت پریشان تھی کہ لوگ علم سے دور ہو رہے ہیں۔میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک مجھے ایک کم عمر بچے کی آواز سنائی دی جو میری طرف اشارہ کر کے دکان دار سے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کی طرف سے مجھے خریدنے کی خواہش سن کر مارے خوشی کے میرے آنسو نکل آئے۔ اس بچے نے مجھے خریدا اور اپنے گھر لے گیا۔ اس نے محبت اور نفاست سے میرے اوپر پڑے گردوغبار کو بھی صاف کیا۔اس نے مجھے پڑھا اور مجھ سے حاصل ہونے والے سبق پر عمل بھی کیا۔میں نے اس کے سالانہ امتحان میں بھی اس کی مدد کی۔وہ جب بھی پریشان ہوتا مجھے اپنے کمرے میں بنی ایک چھوٹی سی لائبریری میں رکھ دیتا۔ گزشتہ بیس سال سے میں اب بھی اس لائبریری میں ہوں اور مجھے خریدنے والا وہ بچہ اب ماشاء اللہ ڈاکٹر بن گیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں اس کے کام آئی۔اور وہ بچے جو ویڈیو گیمز میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے تھے۔اب وہ مزدوریاں کرتے ہیں یا پھر روزگار کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں۔