محمد زین (مظفر گڑھ)
وہ اتوار کا دن تھا۔ دسمبر کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔ گلابی دھوپ بڑی آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی۔ ناشتہ کے بعد میں اپنے گھر کے صحن میں ٹہل رہا تھا اور بڑی بے چینی کے ساتھ اپنے دوستوں کا انتظار کر رہا تھا۔ آج میں نے اپنے دوستوں مصحف، نصراللہ اور سلیمان کے ساتھ دریا کی سیر کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ موٹر سائیکل کا ہارن بجا اور میں بھاگ کر دروازے کی طرف گیا اور دیکھا کہ میرے دوست موٹر سائیکلوں پر آئے ہوئے تھے۔ میں ان کو اپنے گھر میں لے آیا اور بیٹھک میں بٹھا کر چائے سے ان کی خاطر تواضع کی۔ مصحف کے ساتھ ان کا کزن جو ملتان سے آیا ہوا تھا وہ بھی ساتھ تھا۔ میں نے اپنی موٹر سائیکل سنبھالی اور پھر ہم دریا کی طرف چل دیے۔ دریا ہمارے گھر کے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ راستے میں آموں کے خوب صورت باغات تھے جو بہت بھلے لگ رہے تھے۔ لوگ جانوروں کو دھوپ میں باندھنے کے لیے لے جا رہے تھے اور کچھ گلہ بان اپنے بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے حفاظتی بند پر چل رہے تھے۔
تقریباََ آدھے گھنٹے بعد ہم دریا پر پہنچ گئے۔ وہاں بہت ہی دلفریب منظر تھا۔ دریا خاموشی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہم نے رومال، جیکٹس اور جرسیاں وغیرہ پہنی ہوئی تھیں۔ وہاں ریت بہت زیادہ تھی۔ ہم نے ریت پر موج مستیاں کیں۔ ایک دوسرے کو ریت پر دھکے دیتے اور کُشتیاں لڑتے رہے۔ ہم نے کبڈی کا میچ بھی کھیلا۔ میں اور نصراللہ ایک ٹیم تھے۔ مصحف اور سلیمان دوسری ٹیم۔ مصحف کے کزن ابوبکر نے ریفری کے فرائض سر انجام دیے۔ میچ بڑا دل چسپ رہا۔ آخر میں مصحف کی ٹیم نے جیت اپنے نام کی۔
کھیل کود سے ہم کافی تھک چکے تھے اور بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ پانی، مالٹوں اور امی جان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی بریانی کی شکل میں ہم کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لے کر آئے تھے ۔ ہم دھوپ میں دری بچھا کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد ہم کشتی کی طرف گئے۔ کشتی پر لوگوں کا بہت زیادہ ہجوم تھا۔ سلیمان کے پوچھنے پر میں نے اسے بتایا کہ ہمارے گاؤں کی زمینیں اور باغات دریا کی دوسری طرف ہیں، لوگ صبح وہاں جاتے ہیں اور کام کاج کر کے شام کو واپس آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جلال پور پیر والا اور شجاع آباد جانے کے لیے بھی لوگ اپنی موٹر سائیکلوں کے ساتھ کشتی سے سفر کرتے ہیں اور جلدی پہنچ جاتے ہیں۔ ہم بھی کشتی پر سوار ہوئے اور دریا کی دوسری طرف چلے گئے۔ ہم نے وہاں سیلفیاں وغیرہ بنائیں اور علاقے کے لوگوں سے دریا کے بارے میں بہت سی معلومات لیں۔ کافی وقت گزر چکا تھا چنانچہ ہم کشتی کے ذریعے واپس آ گئے۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ دریا پر سورج غروب ہونے کا منظر خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ ہم سب دوست بہت خوش تھے۔ ایک بھرپور تفریحی دن گزارنے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔