مزمل سجاد (ڈیرہ غازی خان)

یہ ایک حقیقت ہے کہ فن تعمیر ثقافتی و تہذیبی روایت کے علاوہ معاشرتی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خطے میں موجود تاریخی عمارات تاریخی کلچر کی مظہر ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں اور جو قومیں اس کی حفاظت نہیں کرتیں، انہیں زوال پذیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ گزشتہ دنوں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کوٹ مبارک کا ٹرپ تفریحی دورے پر ملتان روانہ ہوا۔ یہ سوشل ورک کے طلبہ کا مطالعاتی دورہ تھا۔ مدینۃ الاولیاء ملتان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس کی عظمت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتاہے۔ ہم اپنے پرنسپل مختار حسین صاحب کے ہمراہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پہنچے۔ سب سے پہلے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مزار کی زیارت کا موقع ملا۔ جب پرنسپل صاحب  نے  حضرت شاہ رکن عالم کے مزار کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا تو ہم اپنے دل میں محبت و عقیدت کے جذبات اور احساسات لیے وہاں روانہ ہوئے۔ وہاں ایک خوب صورت اور دل میں گھر کرنے والی ثقافت لیے تاریخی مقبرہ موجود تھا اور قدم قدم پر انتہائی خوب صورت عمارتیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ چونکہ اس دن اس عظیم صوفی بزرگ  کا عرس تھا۔ اس لیے ہر طرف بھیڑ تھی اور درگاہ پر حاضری دینے والے معتقدین و زائرین کا بھی ہجوم تھا۔ جس وقت ہم وہاں پہنچےدرگاہ کے سجادہ نشین خطاب فرما رہے تھے۔ ہم نے کچھ دیر وہاں ٹھہر کر ان کی باتوں کو سنا۔ ملکی صورت حال  کے پیش نظر سیکورٹی ہائی الرٹ تھی۔ ملتان جتنا قدیم شہر ہے، اتنی ہی پرانی اس کی ثقافت ہے۔ ملتانی کھسہ، ملتانی چادر، ملتانی چپل، سوہن حلوہ، ہاتھ سے بنے ہوئے برتن اور خوب صورت اجرکیں، ٹوپیاں غرض ہر سٹال پر ملتان کی ثقافت ہمارے سامنے عیاں تھی۔ خوب صورت تاریخی مقامات عہد رفتہ کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب نے واپس جانے کا حکم دیا ہے۔ سرزمین اولیاء ملتان کی لازوال یادیں دل میں سمیٹے ہم اپنے شہر کوٹ مبارک پہنچے۔ یوں ایک خوب صورت پر لطف اور پُرکیف سفر کا اختتام ہوا۔

شیئر کریں
1182
11