سحرش جاوید (رحیم یار خان)

ایک لومڑی دو دن سے بھوکی تھی اور تلاش کے باوجود اُسے کھانے کے لئے کچھ نہیں مِل رہا تھا۔ شکار تلاش کرتے کرتے اُس کو پیاس محسوس ہوئی۔ اُسی جنگل میں ایک کنواں تھا۔ لومڑی پانی پینے کے لیے کنویں کے پاس پہنچی تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ وہاں چند بکریاں اپنے بچوں کے ساتھ گھاس چر رہی ہیں۔ بکریاں دیکھ کر اُس کی بھوک بڑھ گئی۔ اُس نے سوچا  کہ پہلے پانی پی لوں، پھر سکون سے بکری کا شکار کروں گی۔ وہ پانی پینے کے لیے کنویں پر پہنچی اور منڈیر پر چڑھ کر پانی پینے کے لیے نیچے جھانک رہی تھی کہ اچانک پاؤں پھسلنے سے کنویں میں گر گئی۔ لومڑی نے کنویں سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن اُسے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ملی۔ کچھ دیر بعد گھاس چرنے والی ایک بکری کنویں کی طرف آ نکلی اور لومڑی کو کنویں کے اندر دیکھ کر حیرت سے بولی تم کنویں کے اندر کیا کر رہی ہو بی لومڑی؟ بکری کو دیکھ کر لومڑی کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اُس نے کہا بکری بہن! کنویں کا پانی اِتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے کہ کنویں سے باہر نکلنے کو دِل ہی نہیں چاہ رہا، اگر تم بھی پانی پینا چاہتی ہو تو اندر آ جاوٴ۔ بکری نے جواب دیا پیاس تو مجھے بھی لگی ہے، میں بھی کنویں میں پانی پینے آ جاتی ہوں۔  لومڑی نے کہا کیوں نہیں لیکن یہاں جگہ تھوڑی کم ہے، اس لیے پہلے میری مدد کرو تاکہ میں کنویں سے باہر آ جاؤں، پھر تم سکون سے اندر آ کر پانی پینا۔ بکری نے فوراً کہا ٹھیک ہے، میں ابھی کنویں کے اندر آتی ہوں، تم میرے کندھوں پر چڑھ کر باہر نکل جانا۔ یہ کہہ کر بغیر سوچے سمجھے بکری نے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ لومڑی اس کے کندھوں پر چڑھ کر کنویں سے باہر آ گئی اور میدان میں گھاس چرتی بکریوں میں سے ایک کا شکار کر کے مزے سے کھانے لگی۔ ادھر نادان بکری کو پانی پینے کے بعد اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے کنویں سے باہر نکلنے کے لیے لومڑی کو پکارنا شروع کر دیا مگر تب تک چالاک لومڑی بہت دور جا چکی تھی۔

شیئر کریں
795
6