اقصیٰ زمان (بہاول نگر)
کسی گاؤں میں رحیم نامی ایک کسان رہتا تھا۔ وہ بہت نیک دل اور ایمان دار تھا۔ اپنی انہی خوبیوں کی بنا پر وہ پورے گاؤں میں مشہور تھا۔ لوگ اپنی چیزیں امانت کے طور پر اس کے پاس رکھواتے تھے۔ ایک دن معمول کے مطابق صبح سویرے وہ کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک تھیلی نظر آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر وہ تھیلی اٹھا لی۔ اس نے تھیلی کھول کر دیکھی تو وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کسان تھیلی لے کر کھیتوں میں جانے کے بجائے گھر واپس آ گیا اور اپنی بیوی کو سارا ماجرہ بتا دیا۔ جب اس کی بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس میں اشرفیاں ہیں تو اس کے دل میں لالچ آ گیا۔
اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہم یہ تھیلی رکھ لیتے ہیں اور فوراً یہاں سے چلے جاتے ہیں، شہر جا کر ہم بڑا سا گھر بنوائیں گے اور اس میں آرام سے رہیں گے۔ بیوی کے کہنے کے باوجود کسان لالچ میں نہ آیا اور کہنے لگا، نہیں! میں ایسا نہیں کر سکتا، میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ کر اشرفیاں اس تک پہنچاؤں گا۔
یہ تھیلی تمھیں راستہ میں ملی ہے، تم نے کوئی چوری تو نہیں کی؟ اس کی بیوی اسے تھیلی رکھنے کے لیے جواز پیش کر رہی تھی، مگر کسان نے بیوی کی بات نہ مانی اور تھیلی لے کر باہر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے گاؤں کا چودھری ملا۔ وہ کسان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ تم اس وقت کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے یہاں نظر آ رہے ہو، خیریت تو ہے؟ کسان نے تمام واقعہ چودھری کو بتایا اور کہا میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ اس کی امانت اس تک پہنچا دوں۔ اس کی بات سن کر چودھری مسکرایا اور بولا کہ یہ تھیلی تمھارا انعام ہے۔ اس کی یہ بات سن کر کسان حیرت زدہ رہ گیا اور بولا، انعام ! مگر کیوں۔۔؟ چودھری نے جواب دیا کہ میں نے پورے گاؤں میں تمھاری ایمان داری کے چرچے سنے تھے، اس لیے میں نے یہ تھیلی تمھارے راستے میں رکھ دی تھی، کیوں کہ صبح سویرے اتنی جلدی سوائے تمھارے یہاں سے اور کوئی نہیں گزرتا۔
مگر کیوں؟ کسان نے پوچھا۔
تمھاری ایمان داری کو آزمانے کے لیے، اب یہ تھیلی تمھارا انعام ہے۔ چودھری نے کہا۔
کسان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چودھری نے وہ تھیلی اس سے نہ لی۔ کسان خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو دی اور کہا کہ اگر میں تمھارے کہنے پر لالچ کرتا تو ہرگز ہرگز انعام میں یہ تھیلی نہ ملتی۔پھر اس نے چودھری سے ہونے والی گفتگو اپنی بیوی کو بتا دی۔ کسان نے کچھ اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دیں اور بیوی کو لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک گھر خریدا اور کاروبار کر کے خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔